دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھوک کا مداوا
اربابِ تاریخ و سیر لکھتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر میں قحط سالی کے دور میں حکومت کے جمع شدہ ذخیرے سے قحط زدہ عوام میں غلے کی تقسیم کا نظام قائم فرمایا۔ ابھی آئندہ فصل کے آنے میں تین ماہ باقی تھے کہ غلے کا سٹاک ختم ہو گیا۔ اس پر حضرت یوسف علیہ السلام کو یہ فکر لاحق ہو گئی کہ افلاس زدہ لوگوں کو غلے کی فراہمی کیسے ہو گی۔ وہ اس فکر میں غلطاں تھے کہ اللہ رب العزت نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بذریعہ جبرئیل علیہ السلام یہ پیغام دیا کہ اپنے چہرے کو بے نقاب کر دیجئے، اس طرح بھوکے لوگوں کی بھوک کا مداوا ہو جائے گا۔ روایات میں ہے کہ جو بھوکا شخص حضرت یوسف علیہ السلام کا دیدار کر لیتا اس کی بھوک مٹ جاتی۔
شمائل الترمذی : 27، حاشيه : 3
قرآنِ حکیم نے زنانِ مصر کا ذکر کیا ہے کہ وہ کس طرح حسنِ یوسف علیہ السلام کی دید میں اتنا محو اور بے خود ہو گئیں کہ انہیں اپنے ہاتھوں کی انگلیاں کٹ جانے کا احساس بھی نہ رہا ۔
یہ تو حسنِ یوسفی کی بات ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو تمام انبیاء علیہم السلام کی صفات و کمالات کے جامع ہیں۔ اس لئے حسن و جمال کی بے خود کر دینے والی کیفیت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس میں اس درجہ موجود تھی کہ اسے حیطۂ بیان میں نہیں لایا جاسکتا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت بھوکوں کی بھوک رفع کرنے کا ذریعہ بنتی تھی، چہرۂ اقدس کے دیدار کے بعد بھوک اور پیاس کا احساس کہاں رہتا؟
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے وقت کا شانۂ نبوت سے باہر تشریف لائے کہ :
لا يخرج فيها و لا يلقاه فيها أحد.
''آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے کبھی اس وقت باہر تشریف نہ لاتے تھے اور نہ ہی کوئی آپ سے ملاقات کرتا۔''
پھر یوں ہوا کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی بھوک سے مغلوب باہر تشریف لے آئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رفیقِ غار سے پوچھا :
ما جاء بک يا أبا بکر؟
اے ابوبکر! تم اس وقت کیسے آئے ہو؟
اس وفا شعار عجزو نیاز کے پیکر نے ازراہِ مروّت عرض کیا :
خرجت ألقی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وأنظر فی وجهه و التسليم عليه.
''یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف آپ کی ملاقات، چہرہ انور کی زیارت اور سلام عرض کرنے کی غرض سے حاضر ہوا ہوں۔''
تھوڑی دیر بعد ہی سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بھی اسی راستے پر چلتے ہوئے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوگئے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا :
ما جاء بک يا عمر؟
''اے عمر! تمہیں کون سی ضرورت اس وقت یہاں لائی؟''
شمعِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانے نے عرض کی :
الجوع، یا رسول اﷲ!
''یا رسول اللہ! بھوک کی وجہ سے حاضر ہوا ہوں۔''
والی کون و مکان رحمتِ کل جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
و أنا قد وجدت بعض ذلک.
ترمذی، الجامع الصحيح، 4 : 583، ابواب الزهد، رقم : 22369
ترمذی، الشمائل المحمديه، 1 : 312، رقم : 3373
حاکم، المستدرک، 4 : 145، 47178
طبری، الرياض النضره، 1 : 340
ترمذی، الشمائل المحمديه، 1 : 312، رقم : 3373
حاکم، المستدرک، 4 : 145، 47178
طبری، الرياض النضره، 1 : 340
''اور مجھے بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے۔''
تو ہادیء برحق نبی مکرم حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دونوں جاں نثاروں کے ہمراہ اپنے ایک صحابی حضرت ابو الہیثم بن تیہان انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے۔ ابو الہیثم رضی اللہ عنہ کا شمار متمول انصار میں ہوتا تھا۔ آپ کھجوروں کے ایک باغ کے مالک تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے وقت صاحبِ خانہ گھر پر موجود نہ تھے، اُن کی اہلیہ محترمہ نے بتایا کہ وہ ہمارے لئے میٹھا پانی لینے گئے ہوئے ہیں۔ اتنے میں ابوالہیثم رضی اللہ عنہ بھی آ گئے۔ جب دیکھا کہ آج سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے غریب خانے کو اعزاز بخشا ہے تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی، وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے دو صحابہ رضی اللہ عنھم کے ساتھ اپنے گھر میں دیکھ کر پھولے نہیں سما رہے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنی خوشی کا اظہار کیسے کریں، کیسے بارگاہِ خداوندی میں سجدۂ شکر بجا لائیں؟ ایک عجیب سی کیف و سرور اور انبساط کی لہر نے اہلِ خانہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور گھر کے در و دیوار بھی خوشی سے جھوم اٹھے تھے۔ حضرت ابوالہیثم رضی اللہ عنہ پر جو کیفیت طاری ہوئی اس کے بارے میں حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
يلتزم النبی صلی الله عليه وآله وسلم و يفديه بأبيه و أمه.
ترمذی، الجامع الصحيح، 4 : 583، ابواب الزهد، رقم : 22369
ترمذی، الشمائل المحمديه، 1 : 312، رقم : 3373
حاکم، المستدرک، 4 : 145، رقم : 47178
طبری، الرياض النضره، 1 : 340
ترمذی، الشمائل المحمديه، 1 : 312، رقم : 3373
حاکم، المستدرک، 4 : 145، رقم : 47178
طبری، الرياض النضره، 1 : 340
''(حضرت ابوالہیثم رضی اللہ عنہ آتے ہی) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لپٹ گئے اور کہتے جاتے میرے ماں باپ آپ صلی اﷲ عليک وسلم پر قرباں ہوں۔''
بعد ازاں حضرت ابو الہیشم رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے ان دو صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو اپنے باغ میں لے گئے، تازہ کھجوریں پیش کیں اور کھانا کھلایا۔
شمائلِ ترمذی کے حاشیہ پر مذکورہ حدیث کے حوالے سے یہ عبارت درج ہے :
لعل عمر رضی الله عنه جاء ليتسلي بالنظر في وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کما کان يصنع أهل مصر في زمن يوسف عليه السلام، و لعل هذا المعني کان مقصود أبي بکر رضی الله عنه و قد أدي بالطف وجه کأنه خرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لما ظهر عليه بنور النبوة أن أبابکر طالب ملاقاته، و خرج أبوبکر لما ظهر عليه بنور الولاية أنه صلي الله عليه وآله وسلم خرج في هذا الوقت لانجاح مطلوبه.
شمائل الترمذي : 27، حاشيه : 3
''حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس لئے تشریف لائے تھے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت سے اپنی بھوک مٹانا چاہتے تھے، جس طرح مصر والے حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن سے اپنی بھوک کو مٹا لیا کرتے تھے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عمل میں بھی یہی راز مضمر تھا۔ مگر رفیقِ سفر نے اپنا مدعا نہایت ہی لطیف انداز میں بیان کیا اور یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پُر نورِ نبوت کی وجہ سے آشکار ہو چکا تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ طالبِ ملاقات ہیں اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر نورِ ولایت کی وجہ سے واضح ہو چکا تھا کہ اس گھڑی آقائے مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار انہیں ضرور نصیب ہو گا۔''
***Asif Rao***
**Sargodha**
1 comments:
nice post
Post a Comment