علم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
عصر حاضر کے چیلنجیز کا مقابلہ کرنے کے لئےہم امت مسلمہ پر لازم ہے کہ کتاب و سنت کےعلوم سے اپنے سینوں کو معمور کریں اور انوار قرآن وحدیث سے ضلالت و جہالت کی تاریکیوں کا خاتمہ کریں تاکہ دارین کی سعادتیں ہمارامقدر بنیں ،کیونکہ حق تعالی نے ہمیں اس خاتم النبین کی امت میں پیدا کیا ہے جنہیں اس نے علوم و معارف' حقائق و اسرار کے خزانے عطا فرماکر صبح قیامت تک آنے والی نسل انسانی کی رشد و ہدایت کے لئے اس خاکدان گیتی میں جلوہ گر فرمایا' سورۃ النساء آیت 113 میں ارشاد باری ہے:
وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا-
ترجمہ: اور اللہ نے آپ پر کتاب وحکمت نازل فرمائی اور اس نے آپ کو وہ سب علوم عطا کردئیے جو آپ نہیں جانتے تھے،اور یہ آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔
جامع ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم دونوں دستہائے مبارکہ میں دو کتابیں لے ہوئے برآمد ہوئے اور فرمایا :تم جانتے ہو کہ یہ دو کتابیں کیا ہیں؟ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! آپ کے بتلائے بغیر ہم نہیں جان سکتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدھے دست مبارک کی کتاب کے متعلق فرمایا کہ یہ رب العالمین کی طرف سے ایک کتاب ہے، اس میں جنتیوں کے نام اور ان کے باپ دادا اور قبیلوں کے نام ہیں اور پھر آخر میں سب کی جملہ تعداد بتلادی گئی ہے، ان میں نہ کبھی اضافہ کیا جائے گا اور نہ کمی' پھر اس کتاب کی نسبت فرمایا جو بائیں دست مبارک میں تھی: یہ رب العالمین کی طرف سے ایک کتاب ہے اس میں دوزخیوں کے نام اور ان کے آباء اور قبائل کے نام ہیں، جس کے آخر میں سب کی جملہ تعداد درج کردی گئی ہے' ان میں نہ تو کبھی اضافہ کیا جائے گا اور نہ کمی (جامع ترمذی: 2291) ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَفِى يَدِهِ كِتَابَانِ فَقَالَ : أَتَدْرُونَ مَا هَذَانِ الْكِتَابَانِ. فَقُلْنَا لاَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلاَّ أَنْ تُخْبِرَنَا. فَقَالَ لِلَّذِى فِى يَدِهِ الْيُمْنَى هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ فِيهِ أَسْمَاءُ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَسْمَاءُ آبَائِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ ثُمَّ أُجْمِلَ عَلَى آخِرِهِمْ فَلاَ يُزَادُ فِيهِمْ وَلاَ يُنْقَصُ مِنْهُمْ أَبَدًا. ثُمَّ قَالَ لِلَّذِى فِى شِمَالِهِ هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ فِيهِ أَسْمَاءُ أَهْلِ النَّارِ وَأَسْمَاءُ آبَائِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ ثُمَّ أُجْمِلَ عَلَى آخِرِهِمْ فَلاَ يُزَادُ فِيهِمْ وَلاَ يُنْقَصُ مِنْهُمْ أَبَدًا-
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ا لکٹرانک میڈیا کے ذریعہ لمحہ بھر میں ایک مقام کی خبر ساری دنیا میں پہنچ جاتی ہے اور میڈیا کی وساطت سے پروگرامز (Live) نشر کئے جاتے ہیں'قربان جائیں حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اعجاز علمی پر کہ آپ نے کسی ظاہری وسائل کے بغیر محض بہ عطائے خداوندی کائنات پست و بالا میں ہونے والے واقعات کی خبر دی۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک شام میں ہونے والے ''معرکہ موتہ'' کی ترتیب وار خبر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مدینہ منورہ میںعطا فرمائی ' صحیح بخاری شریف میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
عَنْ أَنَسٍ رضى الله عنه أَنَّ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم نَعَى زَيْدًا وَجَعْفَرًا وَابْنَ رَوَاحَةَ لِلنَّاسِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَهُمْ خَبَرُهُمْ ، فَقَالَ أَخَذَ الرَّايَةَ زَيْدٌ فَأُصِيبَ ، ثُمَّ أَخَذَ جَعْفَرٌ فَأُصِيبَ ، ثُمَّ أَخَذَ ابْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِيبَ ، وَعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ ، حَتَّى أَخَذَ سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ حَتَّى فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ .
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید ' حضرت جعفر اور حضرت ابن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی شہادت کی خبر' ان کے بارے میں وہاں سے باضابطہ اطلاع آنے سے قبل ہی صحابہ کو عطافرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پرچم اسلام کو زید رضی اللہ عنہ نے لیا اور وہ شہید ہوگئے' پھر جعفر رضی اللہ عنہ نے پرچم اسلام تھام لیا اور جام شہادت نوش کرلیا' پھر ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے عَلم اسلام سنبھالا اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چشمان اقدس سے آنسو رواں تھے۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا) یہاں تک کہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد ابن ولید رضی اللہ عنہ نے اسلام کا جھنڈا لیا اور اللہ نے اہل اسلام کو فتح و نصرت سے ہمکنار کیا۔ (صحیح بخاری ' حدیث نمبر: 3757)۔
مسند امام احمد میں روایت ہے:
عَنْ مُنْذِرٍ حَدَّثَنَا أَشْيَاخٌ مِنَ التَّيْمِ قَالُوا قَالَ أَبُو ذَرٍّ لَقَدْ تَرَكَنَا مُحَمَّدٌ صلى الله عليه وسلم وَمَا يُحَرِّكُ طَائِرٌ جَنَاحَيْهِ فِى السَّمَاءِ إِلاَّ أَذْكَرَنَا مِنْهُ عِلْماً.
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حال ميں ہمیں رخصت کیا کہ فضا میں محو پرواز ہر قسم کے پرندوںتک کے بارے میں آپ نے ہمیں آگہی بخشی ہے(مسند امام احمد' حدیث نمبر: 21970)۔
صحیح بخاری شریف میں روایت ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کا گذر دو قبروں پر سے ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ان دونوں کو عذاب ہورہا ہے اور عذاب کسی ایسی وجہ سے نہیں ہورہا ہے جس سے بچنا دشوار تھا 'ان میں سے ایک تو پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلخوری کرتا پھرتا تھا، پھر آپ نے ایک سبز شاخ منگواکر اس کے دو حصے کئے اور ہر ایک ٹکڑا ہر قبر پر لگادیا' صحابہ نے عرض کیا: اس کی حکمت کیا ہے؟ یا رسول اللہ ! ارشاد فرمایا: جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی ۔ (صحیح بخاری شریف،کتاب الجنائز، باب الجريد على القبر،حدیث نمبر:1361)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضى الله عنهما ، عَنِ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ مَرَّ بِقَبْرَيْنِ يُعَذَّبَانِ فَقَالَ : إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ ۔ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِى كَبِيرٍ ،أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لاَ يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ ، وَأَمَّا الآخَرُ فَكَانَ يَمْشِى بِالنَّمِيمَةِ . ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا بِنِصْفَيْنِ ، ثُمَّ غَرَزَ فِى كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً . فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ ، لِمَ صَنَعْتَ هَذَا ؟ فَقَالَ : لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا .
اس موقع پر آپ نے بیک وقت ماضی ، حال و مستقبل کی خبر دی کہ حالیہ قبر میں ہورہے عذاب کو بھی ملاحظہ فرمایا اور ماضی میں کئے گئے ان کی خطاؤں کی بھی نشاندہی فرمائی اور مستقبل کے بارے میں فرمایا کہ جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں اُن کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی
''حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (معراج کی رات) میرا رب میرے پاس (اپنی شان کے لائق) نہایت حسین صورت میں آیا اور فرمایا : یا محمد! میں نے عرض کیا : میرے پروردگار! میں حاضر ہوں بار بار حاضر ہوں۔ فرمایا : عالمِ بالا کے فرشتے کس بات میں جھگڑتے ہیں؟ میں نے عرض کیا : اے میرے پروردگار! میں نہیں جانتا۔ پس اﷲ تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا اور میں نے اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس کی۔ اور میں وہ سب کچھ جان گیا جو کچھ مشرق و مغرب کے درمیان ہے۔''
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ہی مروی ایک اور روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور میں جان گیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی : ''اور اسی طرح ہم ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہتیں (یعنی عجائباتِ خلق) دکھا رہے ہیں اور (یہ) اس لئے کہ وہ عین الیقین والوں میں سے ہو جائے۔'' (الانعام، 6 : 75)۔
''اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور مجھ پر ہر شے کی حقیقت ظاہر کر دی گئی جس سے میں نے (سب کچھ) جان لیا۔''
''حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس مجھ سے دنیا و آخرت کے بارے میں کیئے جانے والے سوالات کے جوابات میں نے اسی مقام پر جان لئے۔''
''اور ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور میں نے دنیا و آخرت کی ہر ایک شے کی حقیقت جان بھی لی اور دیکھ بھی لی۔''
''اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس مجھ سے جب بھی کسی چیز کے متعلق سوال کیا گیا تو میں نے اسے جان لیا۔ پس اس کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھ سے کسی شے کے متعلق سوال کیا گیا ہو اور میں اسے جانتا نہ ہوں۔'
عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه في رواية طويلة أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم شَاوَرَ، حِيْنَ بَلَغَنَا إِقَبَالُ أَبِي سُفْيَانَ، وَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ رضي الله عنه فَقَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِيْضَهَا الْبَحْرَ لَأَخَضْنَاهَا. وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَکْبَادَهَا إلَي بَرْکِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا. قَالَ : فَنَدَبَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم النَّاسَ، فَانْطَلَقُوْا حَتَّي نَزَلُوْا بَدْرًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ قَالَ : وَيَضَعُ يَدَهُ عَلَي الْأَرْضِ، هَاهُنَا وَهَاهُنَا. قَالَ : فَمَا مَاتَ أَحَدُهُمْ عَنْ مَوْضِعِ يَدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاوُدَ.
الحديث رقم 15 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الجهاد والسير، باب : غزوة بدر، 3 / 1403، الرقم : 1779، ونحوه في کتاب : الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب : عرض مقعد الميت من الجنة أو النار عليه وإثبات عذاب القبر والتعوذ منه، 4 / 2202، الرقم : 2873، وأبو داود في السنن، کتاب : الجهاد، باب : في الأسير ينال منه ويضرب ويقرن، 3 / 58، الرقم : 2071، والنسائي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : أرواح المؤمنين، 4 / 108، الرقم : 2074، وفي السنن الکبري، 1 / 665، الرقم؛ 2201، وابن حبان في الصحيح، 11 / 24، الرقم : 4722، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 219، الرقم : 13320، والبزار في المسند، 1 / 340، الرقم : 222، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 362، الرقم : 36708، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 219، الرقم : 8453، وفي المعجم الصغير، 2 / 233، الرقم : 1085، وأبو يعلي في المسند، 6 / 69، الرقم : 3322، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 102، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 381، الرقم : 5871.
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ہمیں ابو سفیان کے (قافلہ کی شام سے) آنے کی خبر پہنچی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا : (یا رسول اللہ!) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر آپ ہمیں سمندر میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیں تو ہم سمندر میں گھوڑے ڈال دیں گے، اگر آپ ہمیں برک الغماد پہاڑ سے گھوڑوں کے سینے ٹکرانے کا حکم دیں تو ہم ایسا بھی کریں گے۔ تب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو بلایا لوگ آئے اور وادی بدر میں اُترے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ فلاں کافر کے گرنے کی جگہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین پر اس جگہ اور کبھی اس جگہ دستِ اقدس رکھتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر (دوسرے دن) کوئی کافر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
الحديث رقم 15 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الجهاد والسير، باب : غزوة بدر، 3 / 1403، الرقم : 1779، ونحوه في کتاب : الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب : عرض مقعد الميت من الجنة أو النار عليه وإثبات عذاب القبر والتعوذ منه، 4 / 2202، الرقم : 2873، وأبو داود في السنن، کتاب : الجهاد، باب : في الأسير ينال منه ويضرب ويقرن، 3 / 58، الرقم : 2071، والنسائي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : أرواح المؤمنين، 4 / 108، الرقم : 2074، وفي السنن الکبري، 1 / 665، الرقم؛ 2201، وابن حبان في الصحيح، 11 / 24، الرقم : 4722، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 219، الرقم : 13320، والبزار في المسند، 1 / 340، الرقم : 222، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 362، الرقم : 36708، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 219، الرقم : 8453، وفي المعجم الصغير، 2 / 233، الرقم : 1085، وأبو يعلي في المسند، 6 / 69، الرقم : 3322، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 102، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 381، الرقم : 5871.
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ہمیں ابو سفیان کے (قافلہ کی شام سے) آنے کی خبر پہنچی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا : (یا رسول اللہ!) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر آپ ہمیں سمندر میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیں تو ہم سمندر میں گھوڑے ڈال دیں گے، اگر آپ ہمیں برک الغماد پہاڑ سے گھوڑوں کے سینے ٹکرانے کا حکم دیں تو ہم ایسا بھی کریں گے۔ تب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو بلایا لوگ آئے اور وادی بدر میں اُترے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ فلاں کافر کے گرنے کی جگہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین پر اس جگہ اور کبھی اس جگہ دستِ اقدس رکھتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر (دوسرے دن) کوئی کافر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّّ صلي الله عليه وآله وسلم نَعَي زَيْدًا وَجَعْفَرًا وَابْنَ رَوَاحَةَ رضي الله عنهم لِلنَّاسِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَهُمْ خَبَرُهُمْ، فَقَالَ : أَخَذَ الرَّايَةَ زَيْدٌ فَأُصِيْبَ، ثُمَّ أَخَذَ جَعْفَرٌ فَأُصِيْبَ، ثُمَّ أَخَذَ ابْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِيْبَ. وَعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ حَتَّي أَخَذَ الرَّايَةَ سَيْفٌ مِنْ سُيُوْفِ اﷲِ، حَتَّي فَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِمْ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 16 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : غزوة مؤته من أرض الشام، 4 / 1554، الرقم : 4014، وفي کتاب : الجنائز، باب : الرجل ينعي إلي أهل الميت بنفسه، 1 / 420، الرقم : 1189، وفي کتاب : الجهاد، باب : تمني الشهادة، 3 / 1030، الرقم : 2645، وفي باب : من تأمر في الحرب من غير إمرة إذا خاف العدو، 3 / 1115، الرقم : 2898، وفي کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1328، الرقم : 3431، وفي کتاب : فضائل الصحابة، باب : مناقب خالد بن الوليد رضي الله عنه، 3 / 1372، الرقم : 3547، ونحوه النسائي في السنن الکبري، 5 / 180، الرقم : 8604، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 204، الرقم : 1750، والحاکم في المستدرک، 3 / 337، الرقم : 5295، وقال : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ اْلإِسْنَادِ، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 105، الرقم : 1459 - 1461، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، کتاب : أحوال القيامة وبداء الخلق، باب : في المعجزات، الفصل الأول، 2 / 384، الرقم : 5887.
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت عبد اﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنھم کے متعلق خبر آنے سے پہلے ہی ان کے شہید ہو جانے کے متعلق لوگوں کو بتا دیا تھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اب جھنڈا زید نے سنبھالا ہوا ہے لیکن وہ شہید ہوگئے۔ اب جعفر نے جھنڈا سنبھال لیا ہے اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ اب ابن رواحہ نے جھنڈا سنبھالا ہے اور وہ بھی جام شہادت نوش کرگئے۔ یہ فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مبارک اشک بار تھیں۔ (پھر فرمایا : ) یہاں تک کہ اب اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار (خالد بن ولید) نے جھنڈا سنبھال لیاہے اس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے کافروں پر فتح عطا فرمائی ہے۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 16 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : غزوة مؤته من أرض الشام، 4 / 1554، الرقم : 4014، وفي کتاب : الجنائز، باب : الرجل ينعي إلي أهل الميت بنفسه، 1 / 420، الرقم : 1189، وفي کتاب : الجهاد، باب : تمني الشهادة، 3 / 1030، الرقم : 2645، وفي باب : من تأمر في الحرب من غير إمرة إذا خاف العدو، 3 / 1115، الرقم : 2898، وفي کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1328، الرقم : 3431، وفي کتاب : فضائل الصحابة، باب : مناقب خالد بن الوليد رضي الله عنه، 3 / 1372، الرقم : 3547، ونحوه النسائي في السنن الکبري، 5 / 180، الرقم : 8604، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 204، الرقم : 1750، والحاکم في المستدرک، 3 / 337، الرقم : 5295، وقال : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ اْلإِسْنَادِ، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 105، الرقم : 1459 - 1461، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، کتاب : أحوال القيامة وبداء الخلق، باب : في المعجزات، الفصل الأول، 2 / 384، الرقم : 5887.
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت عبد اﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنھم کے متعلق خبر آنے سے پہلے ہی ان کے شہید ہو جانے کے متعلق لوگوں کو بتا دیا تھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اب جھنڈا زید نے سنبھالا ہوا ہے لیکن وہ شہید ہوگئے۔ اب جعفر نے جھنڈا سنبھال لیا ہے اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ اب ابن رواحہ نے جھنڈا سنبھالا ہے اور وہ بھی جام شہادت نوش کرگئے۔ یہ فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مبارک اشک بار تھیں۔ (پھر فرمایا : ) یہاں تک کہ اب اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار (خالد بن ولید) نے جھنڈا سنبھال لیاہے اس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے کافروں پر فتح عطا فرمائی ہے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : إِنَّ رَجُلًا کَانَ يَکْتُبُ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَارْتَدَّ عَنِ الإِسْلَامِ، وَلَحِقَ بِالْمُشْرِکِيْنَ، وَقَالَ : أَنَا أَعْلَمُکُمْ إِنْ کُنْتُ لَأَکْتُبُ مَا شِئْتُ فَمَاتَ ذَلِکَ الرَّجُلُ فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الْأَرْضَ لَمْ تَقْبِلْهُ وَقَالَ أَنَسٌ : فَأَخْبَرَنِي أَبُوْ طَلْحَةَ أَنَّهُ أَتَي الْأَرْضَ الَّتِي مَاتَ فِيْهَا فَوَجَدَهُ مَنْبُوْذًا، فَقَالَ : مَا شَأْنُ هَذَا؟ فَقَالُوْا : دَفَنَّاهُ مِرَارًا فَلَمْ تَقْبِلْهُ الْأَرْضُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 17 : أخرجه مسلم نحوه في الصحيح، کتاب : صفات المنافقين وأحکامهم، 4 / 2145، الرقم : 2781، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 120، الرقم : 12236، 13348، والبيهقي في السنن الصغري، 1 / 568، الرقم : 1054، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 381، الرقم : 1278، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 387، الرقم : 5798، وأبو المحاسن في معتصرا المختصر، 2 / 188.
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کتابت کیا کرتا تھا وہ اسلام سے مرتد ہوگیا اور مشرکوں سے جا کر مل گیا اور کہنے لگا میں تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں میں آپ کے لئے جو چاہتا تھا لکھتا تھا سو وہ شخص جب مر گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے زمین قبول نہیں کرے گی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ وہ اس زمین پر آئے جہاں وہ مرا تھا تو دیکھا اس کی لاش قبر سے باہر پڑی تھی۔ پوچھا اس کا کیا حال ہے؟ تو لوگوں نے کہا : ہم نے اسے کئی بار دفن کیا ہے مگر زمین نے اسے قبول نہیں کیا۔
حدیث 1ابوداود شریف کتاب الصلوٰت جلد 1صفحہ 67 الحديث رقم 17 : أخرجه مسلم نحوه في الصحيح، کتاب : صفات المنافقين وأحکامهم، 4 / 2145، الرقم : 2781، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 120، الرقم : 12236، 13348، والبيهقي في السنن الصغري، 1 / 568، الرقم : 1054، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 381، الرقم : 1278، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 387، الرقم : 5798، وأبو المحاسن في معتصرا المختصر، 2 / 188.
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کتابت کیا کرتا تھا وہ اسلام سے مرتد ہوگیا اور مشرکوں سے جا کر مل گیا اور کہنے لگا میں تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں میں آپ کے لئے جو چاہتا تھا لکھتا تھا سو وہ شخص جب مر گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے زمین قبول نہیں کرے گی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ وہ اس زمین پر آئے جہاں وہ مرا تھا تو دیکھا اس کی لاش قبر سے باہر پڑی تھی۔ پوچھا اس کا کیا حال ہے؟ تو لوگوں نے کہا : ہم نے اسے کئی بار دفن کیا ہے مگر زمین نے اسے قبول نہیں کیا۔
***Asif Rao***
**Sargodha**
0 comments:
Post a Comment