19 Jul 2012

سید الکونین و الثقلین صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت و بہادری


سید الکونین و الثقلین صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت و بہادری

سب سے بہادر اور سب سے مضبوط دل والے انسان میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت مشکل مقامات پر اُس وقت ثابت قدمی کا مظاہرہ فرمایا جب بڑے بڑے بہادر میدان چھوڑ جاتے تھے،مگر آقا صلی اللہ علیہ وسلم ان خوفناک اور خون آشام مقامات پر ڈٹے رہے،آگے بڑھتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عزم اور یلغار میں ذرہ برابر کمی نہ آئی دنیا کا ہر بہادر کہیں نہ کہیں فرار یا کمزوری کا شکار ہوا مگر آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا تصور تک نہیں فرمایا۔ 
بے شک سچ فرمایا اللہ تعالٰی نے: انک لعلٰی خُلِقٍ عظیم ۔(القلم)


حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ حسین،سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ شجاع تھے ایک رات اہل مدینہ نے کوئی خوفناک آواز سنی لوگ اس آواز کی طرف دوڑے تو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز والی جگہ کی طرف سے واپس آتے ہوئے پایا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پہلے اس آواز کی طرف تشریف لے گئے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ننگی پشت پر تشریف فرما تھے اور گلے میں تلوار لٹک رہی تھی،اور فرمارہے تھے ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے،ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے،
(بخاری و مسلم )


حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ شجاع،دلیر،سخی اور زیادہ راضی ہونے والا کسی کو نہیں دیکھا،
(نسائی)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب بھی گھمسان کی لڑائی ہوتی اور میدان کارزار گرم ہو جاتا تھا تو ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ لیا کرتے تھے، اور ہم میں سے کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنسبت دشمن کے زیادہ قریب نہیں ہوتا تھا،بدر کے دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ لئے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب سے زیادہ دشمن کے قریب تھے،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن سب سے زیادہ سخت جنگ فرمائی، اور کہا جاتا تھا کہ بہادر وہی ھے جو جنگ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کے قریب ترین ہوتے تھے۔
(صحیح مسلم)

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب بھی دشمن سے ٹکراؤ ہوتا تھا ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم (ابنے لشکر میں سے) سب سے پہلے جنگ شروع فرماتے تھے۔


حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے قیس قبیلے کے ایک شخص نے کہا ،کیا آپ لوگ حنین کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو (میدان جنگ میں ) چھوڑ کر بھاگ گئے تھے؟ حضرت براء رضی اللہ عنہ نے فرمایا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرار اختیار نہیں فرمایا۔قبیلہ ہوازن کے لوگ اس دن ہم پر تیر برسا رہے تھے ، ہم نے جب ان پر حملہ کیا تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے تو ہم لوگ غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے تو انہوں نے ہمیں اچانک تیروں پر لے لیا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تیروں کی بوچھاڑ میں اپنے سفید خچر پر دیکھا اور ابوسفیان بن حارث رضی اللہ عنہ نے اس خچر کی لگام پکڑ رکھی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے،

انا النبی لاکذب انا بن عبدالمطلب
میں سچا نبی ہوں میں عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہوں

(بخاری و مسلم )

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکانہ پہلوان سے کشتی فرمائی اور اسے پچھاڑ دیا۔
(ابوداؤد)

حضرت زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رکانہ جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھاڑا تھا لوگوں میں سب سے طاقتور آدمی تھا،

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کسی بیان کی محتاج نہیں ہے۔میں نے یہاں اس کا مختصر تزکرہ کیا ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت اور دل کی مضبوطی سمجھنے کے لئے معراج کے واقعہ پر غور کیجئے آپ کو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مضبوط دل اور ناقابل شکست حواس کا اندازہ ہو جائے گا، خصوصًا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ رب العزت کے سامنے کھڑے ہونا اور نور ربانی کو برداشت کرنا کوئی معمولی بات نہیں

0 comments:

Post a Comment

 
Copyright © 2010 Shan-e-Mustafa. All rights reserved.