
31 Oct 2011
29 Oct 2011
آپ کا ذِکر ذِکر خُدا ہے
آپ کا ذِکر ذِکر خُدا ہے
حدیث قدسی ہے، اللہ تعالي فرماتا ہے۔
میں نے ایمان کا مکمل ہونا اس بات پر موقوف کر دیا ہے کہ ا ے محبوب میرے ذکر کے ساتھ تمھارا ذکر بھی ہو اور میں نے تمہارے ذکر کو اپنا ذکر ٹھہرا دیا ہے، پس جس نے تمہارا ذکر کیا اُس نے میرا ذکر کیا۔ ۔۔شفا شریف۔۔
..............
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
میرے پاس جبریل آئے اور کہا بے شک آپکا رب فرماتا ہے کہ ائے حبیب تمہیں معلوم ہے کہ مین نے تمھارا ذکر کیسا بلند کیا ہےمیں نے کہا اللہ خُوب جانتا ہے فرمایا کہ جب میرا ذکر ہوگا تو میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر بھی ہوگا۔۔۔درمنشور۔
.......................
حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ،
آدم علیہ السلام آپنے بیٹےشیت علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوے اور فرمایا ائے میرے بیٹے تم میرے بعد میرے خلیفہ ہو پس خلافت کو تقوی کے تاج اور محکم یقین کے ساھ پکڑے رہو اور جب تم اللہ کا ذکر کروتو اس کے متصل نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرو کیونکہ میں نے اس کا نام عرش کے ستونوں پر لکھا ہوا دیکھاہے جب کہ میں روح و مٹی کے درمیان تھا پھر میں نے تمام آسمانوں پر نظر کی تو مجھے کوئی جگہ ایسی نظر نہیں آئی جہا ں نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم
لکھا ہوا نہ ہواورمیرے رب نے مجھے جنت میں رکھا تو میں نے جنت کے کے ہر محل اور ہر بلا خانے اور برآمدے پر اور تمام حوروں کے سینوں پر اور جنت کے تمام درختوں کے پتوں پر اور شجر طوبي اور سدرۃ المنتہی کے پتوں پر اور پردوں کے کناروں پر اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم لکھا ہو ادیکھا ہے لہذا تو کثرت سے انکا ذکر کیاکر، کیونکہ فرشتے ہر وقت اس کے ذکر میں مشغول رہتے ہیں۔۔۔زرقانی علی المواہب۔۔
محمد کی محبت دین حق کی شرط اوّل ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے
***Asif Rao***
**Sargodha**
28 Oct 2011
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی شانِ علم اور معرفت
الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ
میں صدقے یا رسول اللہ
میرے ماں باپ قربان
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت کا بیان
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت کا بیان
الحديث رقم 9 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الاعتصام بالکتاب والسنة، باب : ما يکره من کثرة السؤال وتکلف ما لايعنيه، 6 / 2660، الرقم : 6864، وفي کتاب : مواقيت الصلاة، باب : وقت الظهر عند الزوال، 1 / 200، الرقم : 2001، 2278، وفي کتاب : العلم، باب : حسن برک علي رکبتيه عند الإمام أو المحدث، 1 / 47، الرقم : 93، وفي الأدب المفرد، 1 : 404، الرقم : 1184، ومسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : توقيره صلي الله عليه وآله وسلم وترک إکثار سؤال عما لا ضرورة إليه، 4 / 1832، الرقم : 2359، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 162، الرقم : 12681، وأبو يعلي في المسند، 6 / 286، الرقم : 3201، وابن حبان في الصحيح، 1 / 309، الرقم : 106، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 72، الرقم : 9155.
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آفتاب ڈھلا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھائی پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور پھر فرمایا : اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات و حادثات ہیں، پھر فرمایا : جو شخص کسی بھی نوعیت کی کوئی بات پوچھنا چاہتا ہے تو وہ پوچھے، خدا کی قسم! میں جب تک یہاں کھڑا ہوں تم جو بھی پوچھو گے اس کا جواب دوں گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے زاروقطار رونا شروع کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلال کے سبب بار بار یہ اعلان فرما رہے تھے کہ کوئی سوال کرو، مجھ سے (جو چاہو) پوچھ لو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ! میرا ٹھکانہ کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دوزخ میں۔ پھر حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تیرا باپ حذافہ ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار فرماتے رہے مجھ سے سوال کرو مجھ سے سوال کرو، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض گذار ہوئے۔ ہم اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں (اور ہمیں کچھ نہیں پوچھنا)۔ راوی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ گذارش کی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! ابھی ابھی اس دیوار کے سامنے مجھ پر جنت اور دوزخ پیش کی گئیں جبکہ میں نماز پڑھ رہا تھا تو آج کی طرح میں نے خیر اور شر کو کبھی نہیں دیکھا
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آفتاب ڈھلا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھائی پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور پھر فرمایا : اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات و حادثات ہیں، پھر فرمایا : جو شخص کسی بھی نوعیت کی کوئی بات پوچھنا چاہتا ہے تو وہ پوچھے، خدا کی قسم! میں جب تک یہاں کھڑا ہوں تم جو بھی پوچھو گے اس کا جواب دوں گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے زاروقطار رونا شروع کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلال کے سبب بار بار یہ اعلان فرما رہے تھے کہ کوئی سوال کرو، مجھ سے (جو چاہو) پوچھ لو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ! میرا ٹھکانہ کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دوزخ میں۔ پھر حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تیرا باپ حذافہ ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار فرماتے رہے مجھ سے سوال کرو مجھ سے سوال کرو، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض گذار ہوئے۔ ہم اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں (اور ہمیں کچھ نہیں پوچھنا)۔ راوی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ گذارش کی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! ابھی ابھی اس دیوار کے سامنے مجھ پر جنت اور دوزخ پیش کی گئیں جبکہ میں نماز پڑھ رہا تھا تو آج کی طرح میں نے خیر اور شر کو کبھی نہیں دیکھا
۔
نْ عُمَرَ رضي الله عنه يَقُوْلُ : قَامَ فِيْنَا النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم مَقَامًا، فَأَخْبَرَنَا عَنْ بَدْءِ الْخَلْقِ حَتَّي دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مَنَازِلَهُمْ وَأَهْلُ النَّارِ مَنَازِلَهُمْ، حَفِظَ ذَلِکَ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
الحديث رقم 10 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : بدء الخلق، باب : ما جاء في قول اﷲ تعالي : وهو الذي يبدأ الخلق ثم يعيده وهوأهون عليه، 3 / 1166، الرقم : 3020.
''حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز ہمارے درمیان قیام فرما ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مخلوقات کی ابتدا سے لے کر جنتیوں کے جنت میں داخل ہو جانے اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخل ہو جانے تک ہمیں سب کچھ بتا دیا۔ جس نے اسے یاد رکھا، یاد رکھا اور جو اسے بھول گیا سو بھول گیا۔''
559 / 11. عَنْ حُذَيفَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَامَ فِيْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مَقَامًا مَا تَرَکَ شَيْئًا يَکُوْنُ فِي مَقَامِهِ ذَلِکَ إِلَي قِيَامِ السَّاعَةِ، إِلَّا حَدَّثَ بِهِ حَفِظَهُ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
الحديث رقم 11 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : القدر، باب : وکان أمر اﷲ قدرا مقدورا، 6 / 2435، الرقم : 6230، ومسلم في الصحيح، کتاب : الفتن وأشراط الساعة، باب : اخبار النبي صلي الله عليه وآله وسلم فيما يکون إلي قيام الساعة، 4 / 2217، الرقم : 2891، والترمذي مثله عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه في السنن، کتاب : الفتن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء أخبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم أصحابه بما هو کائن إلي يوم القيامة، 4 / 483، الرقم : 2191، وأبوداود في السنن، کتاب : الفتن والملاحم، باب : ذکر الفتن ودلائلها، 4 / 94، الرقم : 4240، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 385، الرقم : 23322، والبزار في المسند، 7 / 231، الرقم : 8499، وقال : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، والطبراني مثله عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه في مسند الشاميين، 2 / 247، الرقم : 1278، والخطيب التبريزي في مشکوٰة المصابيح، 2 / 278، الرقم : 5379.
''حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے درمیان ایک مقام پر کھڑے ہو کر خطاب فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس دن کھڑے ہونے سے لے کر قیامت تک کی کوئی ایسی چیز نہ چھوڑی، جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان نہ فرما دیا ہو۔ جس نے اسے یاد رکھا یاد رکھا اور جو اسے بھول گیا سو بھول گیا۔'
الحديث رقم 10 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : بدء الخلق، باب : ما جاء في قول اﷲ تعالي : وهو الذي يبدأ الخلق ثم يعيده وهوأهون عليه، 3 / 1166، الرقم : 3020.
''حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز ہمارے درمیان قیام فرما ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مخلوقات کی ابتدا سے لے کر جنتیوں کے جنت میں داخل ہو جانے اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخل ہو جانے تک ہمیں سب کچھ بتا دیا۔ جس نے اسے یاد رکھا، یاد رکھا اور جو اسے بھول گیا سو بھول گیا۔''
559 / 11. عَنْ حُذَيفَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَامَ فِيْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مَقَامًا مَا تَرَکَ شَيْئًا يَکُوْنُ فِي مَقَامِهِ ذَلِکَ إِلَي قِيَامِ السَّاعَةِ، إِلَّا حَدَّثَ بِهِ حَفِظَهُ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
الحديث رقم 11 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : القدر، باب : وکان أمر اﷲ قدرا مقدورا، 6 / 2435، الرقم : 6230، ومسلم في الصحيح، کتاب : الفتن وأشراط الساعة، باب : اخبار النبي صلي الله عليه وآله وسلم فيما يکون إلي قيام الساعة، 4 / 2217، الرقم : 2891، والترمذي مثله عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه في السنن، کتاب : الفتن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء أخبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم أصحابه بما هو کائن إلي يوم القيامة، 4 / 483، الرقم : 2191، وأبوداود في السنن، کتاب : الفتن والملاحم، باب : ذکر الفتن ودلائلها، 4 / 94، الرقم : 4240، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 385، الرقم : 23322، والبزار في المسند، 7 / 231، الرقم : 8499، وقال : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، والطبراني مثله عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه في مسند الشاميين، 2 / 247، الرقم : 1278، والخطيب التبريزي في مشکوٰة المصابيح، 2 / 278، الرقم : 5379.
''حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے درمیان ایک مقام پر کھڑے ہو کر خطاب فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس دن کھڑے ہونے سے لے کر قیامت تک کی کوئی ایسی چیز نہ چھوڑی، جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان نہ فرما دیا ہو۔ جس نے اسے یاد رکھا یاد رکھا اور جو اسے بھول گیا سو بھول گیا۔'
عَنْ عَمْرِو بْنِ أَخْطَبَ رضي الله عنه قَالَ : صَلَّي بِنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم الْفَجْرَ. وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتَّي حَضَرَتِ الظُّهْرُ، فَنَزَلَ فَصَلَّي ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ. فَخَطَبَنَا حَتَّي حَضَرَتِ الْعَصْرُ، ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّي ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ. فَخَطَبَنَا حَتَّي غَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَأَخْبَرَنَا بِمَا کَانَ وَبِمَا هُوَ کَاءِنٌ قَالَ : فَأَعْلَمُنَا أَحْفَظُنَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
الحديث رقم 12 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الفتن وأشراط الساعة، باب : إخبار النبي صلي الله عليه وآله وسلم فيما يکون إلي قيام الساعة، 4 / 2217، الرقم : 2892، والترمذي في السنن، کتاب : الفتن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء ما أخبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم أصحابه بما هو کائن إلي يوم القيامة، 4 / 483، الرقم : 2191، وابن حبان في الصحيح، 15 / 9، الرقم : 6638، والحاکم في المستدرک، 4 / 533، الرقم : 8498، وأبويعلي في المسند، 12 / 237، الرقم : 2844، والطبراني في المعجم الکبير، 17 / 28، الرقم : 46، والشيباني في الأحاد والمثاني، 4 / 199، الرقم : 2183.
''حضرت عمرو بن اخطب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز فجر میں ہماری امامت فرمائی اور منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ہمیں خطاب فرمایا یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہوگیا' پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیچے تشریف لے آئے نماز پڑھائی بعد ازاں پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہمیں خطاب فرمایا حتی کہ عصر کا وقت ہو گیا پھر منبر سے نیچے تشریف لائے اور نماز پڑھائی پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ہر اس بات کی خبر دے دی جو جو آج تک وقوع پذیر ہو چکی تھی اور جو قیامت تک ہونے والی تھی۔ حضرت عمرو بن اخطب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم میں زیادہ جاننے والا وہی ہے جو ہم میں سب سے زیادہ حافظہ والا تھا۔
الحديث رقم 12 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الفتن وأشراط الساعة، باب : إخبار النبي صلي الله عليه وآله وسلم فيما يکون إلي قيام الساعة، 4 / 2217، الرقم : 2892، والترمذي في السنن، کتاب : الفتن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء ما أخبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم أصحابه بما هو کائن إلي يوم القيامة، 4 / 483، الرقم : 2191، وابن حبان في الصحيح، 15 / 9، الرقم : 6638، والحاکم في المستدرک، 4 / 533، الرقم : 8498، وأبويعلي في المسند، 12 / 237، الرقم : 2844، والطبراني في المعجم الکبير، 17 / 28، الرقم : 46، والشيباني في الأحاد والمثاني، 4 / 199، الرقم : 2183.
''حضرت عمرو بن اخطب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز فجر میں ہماری امامت فرمائی اور منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ہمیں خطاب فرمایا یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہوگیا' پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیچے تشریف لے آئے نماز پڑھائی بعد ازاں پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہمیں خطاب فرمایا حتی کہ عصر کا وقت ہو گیا پھر منبر سے نیچے تشریف لائے اور نماز پڑھائی پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ہر اس بات کی خبر دے دی جو جو آج تک وقوع پذیر ہو چکی تھی اور جو قیامت تک ہونے والی تھی۔ حضرت عمرو بن اخطب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم میں زیادہ جاننے والا وہی ہے جو ہم میں سب سے زیادہ حافظہ والا تھا۔
عَنْ حُذَيْفَةَ رضي الله عنه أَنَّهُ قَالَ : أَخْبَرَنِي رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : بِمَا هُوَکَاءِنٌ إِلَي أَنْ تَقُوْمَ السَّاعَةُ. فَمَا مِنْهُ شَيئٌ إِلاَّ قَدْ سَأَلْتُهُ إِلاَّ أَنِّي لَمْ أَسْأَلْهُ مَا يُخْرِجُ أَهْلَ الْمَدِيْنَةِ مِنْ الْمَدِيْنَةِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 13 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الفتن وأشراط الساعة، باب إخبار النبي صلي الله عليه وآله وسلم فيما يکون إلي قيام الساعة، 4 / 2217، الرقم : 2891، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 386، الرقم : 23329، والحاکم في المستدرک، 4 / 472، الرقم : 8311، والبزار في المسند، 7 / 222، الرقم : 2795، والطيالسي في المسند، 1 / 58، الرقم : 433، وابن منده في کتاب الإيمان، 2 / 912، الرقم : 996، وإسناده صحيح، والمقرئ في السنن الواردة في الفتن، 4 / 889، الرقم : 458.
''حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے قیامت تک رونما ہونے والی ہر ایک بات بتا دی اور کوئی ایسی بات نہ رہی جسے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا نہ ہو البتہ میں نے یہ نہ پوچھا کہ اہلِ مدینہ کو کون سی چیز مدینہ سے نکالے گی؟'
الحديث رقم 13 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الفتن وأشراط الساعة، باب إخبار النبي صلي الله عليه وآله وسلم فيما يکون إلي قيام الساعة، 4 / 2217، الرقم : 2891، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 386، الرقم : 23329، والحاکم في المستدرک، 4 / 472، الرقم : 8311، والبزار في المسند، 7 / 222، الرقم : 2795، والطيالسي في المسند، 1 / 58، الرقم : 433، وابن منده في کتاب الإيمان، 2 / 912، الرقم : 996، وإسناده صحيح، والمقرئ في السنن الواردة في الفتن، 4 / 889، الرقم : 458.
''حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے قیامت تک رونما ہونے والی ہر ایک بات بتا دی اور کوئی ایسی بات نہ رہی جسے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا نہ ہو البتہ میں نے یہ نہ پوچھا کہ اہلِ مدینہ کو کون سی چیز مدینہ سے نکالے گی؟'
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَتَانِي رَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، قُلْتُ : لَبَّيْکَ وَسَعْدَيْکَ. قَالَ : فِيْمَ يَخْتَصِمُ الْمَ.لَأُ الْأَعْلَي؟ قُلْتُ : رَبِّي لَا أَدْرِي، فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ کَتِفَيَّ، حَتَّي وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ، فَعَلِمْتُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْيَعْلَي. وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
وفي رواية عنه : قَالَ : فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَتَلاَ : (وَکَذَلِکَ نُرِيْ إِبْرَاهِيْمَ مَلَکُوْتَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْقِنِيْنَ) (الأنعام، 6 : 75). رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
وفي رواية : عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه قَالَ : فَتَجَلَّي لِي کُلُّ شَيءٍ وَعَرَفْتُ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
وفي رواية : عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه قَالَ : فَعَلِمْتُ فِي مَقَامِي ذَلِکَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالرُّوْيَانِيُّ.
وفي رواية : فَعَلِمْتُ مِنْ کُلِّ شَيءٍ وَبَصَرْتُهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
وفي رواية : عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضي الله عنه قَالَ : فَمَا سَأَلَنِي عَنْ شَيءٍ إِلَّا عَلِمْتُهُ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.
إِسْنَادُهُ حَسَنٌ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
الحديث رقم 14 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ومن سورة ص، 5 / 366 - 368، الرقم : 3233 - 3235، والدارمي في السنن، کتاب الرؤيا، باب : في رؤية الرب تعالي في النوم، 2 / 170، الرقم : 2149، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 368، الرقم : 3484، 4 / 66، 5 / 243، الرقم : 22162، 23258، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 290، الرقم : 8117، 20 / 109، 141، الرقم : 216، 690، والروياني في المسند، 1 / 429، الرقم : 656، 2 / 299، الرقم : 1241، وأبويعلي في المسند، 4 / 475، الرقم : 2608، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 313، الرقم : 31706، والشيباني في الآحاد والمثاني، 5 / 49، الرقم : 2585، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 228، الرقم : 682، وابن أبي عاصم في السنة 1 / 203، الرقم : 465، إِسْنَادُهُ حَسَنٌ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ. وعبد اﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 489، الرقم : 1121، والحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 3 / 120، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 159، الرقم : 591، وابن عبد البر في التمهيد، 24 / 323، وابن النجاد في الرّد علي من يقول القرآن مخلوق، 1 / 5856، الرقم : 76 - 78، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 176 - 178.
''حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (معراج کی رات) میرا رب میرے پاس (اپنی شان کے لائق) نہایت حسین صورت میں آیا اور فرمایا : یا محمد! میں نے عرض کیا : میرے پروردگار! میں حاضر ہوں بار بار حاضر ہوں۔ فرمایا : عالمِ بالا کے فرشتے کس بات میں جھگڑتے ہیں؟ میں نے عرض کیا : اے میرے پروردگار! میں نہیں جانتا۔ پس اﷲ تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا اور میں نے اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس کی۔ اور میں وہ سب کچھ جان گیا جو کچھ مشرق و مغرب کے درمیان ہے۔''
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ہی مروی ایک اور روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور میں جان گیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی : ''اور اسی طرح ہم ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہتیں (یعنی عجائباتِ خلق) دکھا رہے ہیں اور (یہ) اس لئے کہ وہ عین الیقین والوں میں سے ہو جائے۔'' (الانعام، 6 : 75)۔
''اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور مجھ پر ہر شے کی حقیقت ظاہر کر دی گئی جس سے میں نے (سب کچھ) جان لیا۔''
''حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس مجھ سے دنیا و آخرت کے بارے میں کیئے جانے والے سوالات کے جوابات میں نے اسی مقام پر جان لئے۔''
''اور ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور میں نے دنیا و آخرت کی ہر ایک شے کی حقیقت جان بھی لی اور دیکھ بھی لی۔''
''اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس مجھ سے جب بھی کسی چیز کے متعلق سوال کیا گیا تو میں نے اسے جان لیا۔ پس اس کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھ سے کسی شے کے متعلق سوال کیا گیا ہو اور میں اسے جانتا نہ ہوں۔'
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْيَعْلَي. وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
وفي رواية عنه : قَالَ : فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَتَلاَ : (وَکَذَلِکَ نُرِيْ إِبْرَاهِيْمَ مَلَکُوْتَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْقِنِيْنَ) (الأنعام، 6 : 75). رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
وفي رواية : عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه قَالَ : فَتَجَلَّي لِي کُلُّ شَيءٍ وَعَرَفْتُ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
وفي رواية : عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه قَالَ : فَعَلِمْتُ فِي مَقَامِي ذَلِکَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالرُّوْيَانِيُّ.
وفي رواية : فَعَلِمْتُ مِنْ کُلِّ شَيءٍ وَبَصَرْتُهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
وفي رواية : عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضي الله عنه قَالَ : فَمَا سَأَلَنِي عَنْ شَيءٍ إِلَّا عَلِمْتُهُ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.
إِسْنَادُهُ حَسَنٌ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
الحديث رقم 14 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ومن سورة ص، 5 / 366 - 368، الرقم : 3233 - 3235، والدارمي في السنن، کتاب الرؤيا، باب : في رؤية الرب تعالي في النوم، 2 / 170، الرقم : 2149، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 368، الرقم : 3484، 4 / 66، 5 / 243، الرقم : 22162، 23258، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 290، الرقم : 8117، 20 / 109، 141، الرقم : 216، 690، والروياني في المسند، 1 / 429، الرقم : 656، 2 / 299، الرقم : 1241، وأبويعلي في المسند، 4 / 475، الرقم : 2608، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 313، الرقم : 31706، والشيباني في الآحاد والمثاني، 5 / 49، الرقم : 2585، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 228، الرقم : 682، وابن أبي عاصم في السنة 1 / 203، الرقم : 465، إِسْنَادُهُ حَسَنٌ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ. وعبد اﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 489، الرقم : 1121، والحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 3 / 120، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 159، الرقم : 591، وابن عبد البر في التمهيد، 24 / 323، وابن النجاد في الرّد علي من يقول القرآن مخلوق، 1 / 5856، الرقم : 76 - 78، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 176 - 178.
''حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (معراج کی رات) میرا رب میرے پاس (اپنی شان کے لائق) نہایت حسین صورت میں آیا اور فرمایا : یا محمد! میں نے عرض کیا : میرے پروردگار! میں حاضر ہوں بار بار حاضر ہوں۔ فرمایا : عالمِ بالا کے فرشتے کس بات میں جھگڑتے ہیں؟ میں نے عرض کیا : اے میرے پروردگار! میں نہیں جانتا۔ پس اﷲ تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا اور میں نے اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس کی۔ اور میں وہ سب کچھ جان گیا جو کچھ مشرق و مغرب کے درمیان ہے۔''
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ہی مروی ایک اور روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور میں جان گیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی : ''اور اسی طرح ہم ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہتیں (یعنی عجائباتِ خلق) دکھا رہے ہیں اور (یہ) اس لئے کہ وہ عین الیقین والوں میں سے ہو جائے۔'' (الانعام، 6 : 75)۔
''اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور مجھ پر ہر شے کی حقیقت ظاہر کر دی گئی جس سے میں نے (سب کچھ) جان لیا۔''
''حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس مجھ سے دنیا و آخرت کے بارے میں کیئے جانے والے سوالات کے جوابات میں نے اسی مقام پر جان لئے۔''
''اور ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور میں نے دنیا و آخرت کی ہر ایک شے کی حقیقت جان بھی لی اور دیکھ بھی لی۔''
''اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس مجھ سے جب بھی کسی چیز کے متعلق سوال کیا گیا تو میں نے اسے جان لیا۔ پس اس کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھ سے کسی شے کے متعلق سوال کیا گیا ہو اور میں اسے جانتا نہ ہوں۔'
عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه في رواية طويلة أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم شَاوَرَ، حِيْنَ بَلَغَنَا إِقَبَالُ أَبِي سُفْيَانَ، وَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ رضي الله عنه فَقَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِيْضَهَا الْبَحْرَ لَأَخَضْنَاهَا. وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَکْبَادَهَا إلَي بَرْکِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا. قَالَ : فَنَدَبَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم النَّاسَ، فَانْطَلَقُوْا حَتَّي نَزَلُوْا بَدْرًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ قَالَ : وَيَضَعُ يَدَهُ عَلَي الْأَرْضِ، هَاهُنَا وَهَاهُنَا. قَالَ : فَمَا مَاتَ أَحَدُهُمْ عَنْ مَوْضِعِ يَدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاوُدَ.
الحديث رقم 15 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الجهاد والسير، باب : غزوة بدر، 3 / 1403، الرقم : 1779، ونحوه في کتاب : الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب : عرض مقعد الميت من الجنة أو النار عليه وإثبات عذاب القبر والتعوذ منه، 4 / 2202، الرقم : 2873، وأبو داود في السنن، کتاب : الجهاد، باب : في الأسير ينال منه ويضرب ويقرن، 3 / 58، الرقم : 2071، والنسائي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : أرواح المؤمنين، 4 / 108، الرقم : 2074، وفي السنن الکبري، 1 / 665، الرقم؛ 2201، وابن حبان في الصحيح، 11 / 24، الرقم : 4722، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 219، الرقم : 13320، والبزار في المسند، 1 / 340، الرقم : 222، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 362، الرقم : 36708، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 219، الرقم : 8453، وفي المعجم الصغير، 2 / 233، الرقم : 1085، وأبو يعلي في المسند، 6 / 69، الرقم : 3322، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 102، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 381، الرقم : 5871.
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ہمیں ابو سفیان کے (قافلہ کی شام سے) آنے کی خبر پہنچی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا : (یا رسول اللہ!) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر آپ ہمیں سمندر میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیں تو ہم سمندر میں گھوڑے ڈال دیں گے، اگر آپ ہمیں برک الغماد پہاڑ سے گھوڑوں کے سینے ٹکرانے کا حکم دیں تو ہم ایسا بھی کریں گے۔ تب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو بلایا لوگ آئے اور وادی بدر میں اُترے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ فلاں کافر کے گرنے کی جگہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین پر اس جگہ اور کبھی اس جگہ دستِ اقدس رکھتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر (دوسرے دن) کوئی کافر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
الحديث رقم 15 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الجهاد والسير، باب : غزوة بدر، 3 / 1403، الرقم : 1779، ونحوه في کتاب : الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب : عرض مقعد الميت من الجنة أو النار عليه وإثبات عذاب القبر والتعوذ منه، 4 / 2202، الرقم : 2873، وأبو داود في السنن، کتاب : الجهاد، باب : في الأسير ينال منه ويضرب ويقرن، 3 / 58، الرقم : 2071، والنسائي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : أرواح المؤمنين، 4 / 108، الرقم : 2074، وفي السنن الکبري، 1 / 665، الرقم؛ 2201، وابن حبان في الصحيح، 11 / 24، الرقم : 4722، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 219، الرقم : 13320، والبزار في المسند، 1 / 340، الرقم : 222، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 362، الرقم : 36708، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 219، الرقم : 8453، وفي المعجم الصغير، 2 / 233، الرقم : 1085، وأبو يعلي في المسند، 6 / 69، الرقم : 3322، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 102، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 381، الرقم : 5871.
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ہمیں ابو سفیان کے (قافلہ کی شام سے) آنے کی خبر پہنچی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا : (یا رسول اللہ!) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر آپ ہمیں سمندر میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیں تو ہم سمندر میں گھوڑے ڈال دیں گے، اگر آپ ہمیں برک الغماد پہاڑ سے گھوڑوں کے سینے ٹکرانے کا حکم دیں تو ہم ایسا بھی کریں گے۔ تب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو بلایا لوگ آئے اور وادی بدر میں اُترے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ فلاں کافر کے گرنے کی جگہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین پر اس جگہ اور کبھی اس جگہ دستِ اقدس رکھتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر (دوسرے دن) کوئی کافر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّّ صلي الله عليه وآله وسلم نَعَي زَيْدًا وَجَعْفَرًا وَابْنَ رَوَاحَةَ رضي الله عنهم لِلنَّاسِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَهُمْ خَبَرُهُمْ، فَقَالَ : أَخَذَ الرَّايَةَ زَيْدٌ فَأُصِيْبَ، ثُمَّ أَخَذَ جَعْفَرٌ فَأُصِيْبَ، ثُمَّ أَخَذَ ابْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِيْبَ. وَعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ حَتَّي أَخَذَ الرَّايَةَ سَيْفٌ مِنْ سُيُوْفِ اﷲِ، حَتَّي فَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِمْ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 16 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : غزوة مؤته من أرض الشام، 4 / 1554، الرقم : 4014، وفي کتاب : الجنائز، باب : الرجل ينعي إلي أهل الميت بنفسه، 1 / 420، الرقم : 1189، وفي کتاب : الجهاد، باب : تمني الشهادة، 3 / 1030، الرقم : 2645، وفي باب : من تأمر في الحرب من غير إمرة إذا خاف العدو، 3 / 1115، الرقم : 2898، وفي کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1328، الرقم : 3431، وفي کتاب : فضائل الصحابة، باب : مناقب خالد بن الوليد رضي الله عنه، 3 / 1372، الرقم : 3547، ونحوه النسائي في السنن الکبري، 5 / 180، الرقم : 8604، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 204، الرقم : 1750، والحاکم في المستدرک، 3 / 337، الرقم : 5295، وقال : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ اْلإِسْنَادِ، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 105، الرقم : 1459 - 1461، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، کتاب : أحوال القيامة وبداء الخلق، باب : في المعجزات، الفصل الأول، 2 / 384، الرقم : 5887.
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت عبد اﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنھم کے متعلق خبر آنے سے پہلے ہی ان کے شہید ہو جانے کے متعلق لوگوں کو بتا دیا تھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اب جھنڈا زید نے سنبھالا ہوا ہے لیکن وہ شہید ہوگئے۔ اب جعفر نے جھنڈا سنبھال لیا ہے اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ اب ابن رواحہ نے جھنڈا سنبھالا ہے اور وہ بھی جام شہادت نوش کرگئے۔ یہ فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مبارک اشک بار تھیں۔ (پھر فرمایا : ) یہاں تک کہ اب اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار (خالد بن ولید) نے جھنڈا سنبھال لیاہے اس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے کافروں پر فتح عطا فرمائی ہے۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 16 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : غزوة مؤته من أرض الشام، 4 / 1554، الرقم : 4014، وفي کتاب : الجنائز، باب : الرجل ينعي إلي أهل الميت بنفسه، 1 / 420، الرقم : 1189، وفي کتاب : الجهاد، باب : تمني الشهادة، 3 / 1030، الرقم : 2645، وفي باب : من تأمر في الحرب من غير إمرة إذا خاف العدو، 3 / 1115، الرقم : 2898، وفي کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1328، الرقم : 3431، وفي کتاب : فضائل الصحابة، باب : مناقب خالد بن الوليد رضي الله عنه، 3 / 1372، الرقم : 3547، ونحوه النسائي في السنن الکبري، 5 / 180، الرقم : 8604، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 204، الرقم : 1750، والحاکم في المستدرک، 3 / 337، الرقم : 5295، وقال : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ اْلإِسْنَادِ، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 105، الرقم : 1459 - 1461، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، کتاب : أحوال القيامة وبداء الخلق، باب : في المعجزات، الفصل الأول، 2 / 384، الرقم : 5887.
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت عبد اﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنھم کے متعلق خبر آنے سے پہلے ہی ان کے شہید ہو جانے کے متعلق لوگوں کو بتا دیا تھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اب جھنڈا زید نے سنبھالا ہوا ہے لیکن وہ شہید ہوگئے۔ اب جعفر نے جھنڈا سنبھال لیا ہے اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ اب ابن رواحہ نے جھنڈا سنبھالا ہے اور وہ بھی جام شہادت نوش کرگئے۔ یہ فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مبارک اشک بار تھیں۔ (پھر فرمایا : ) یہاں تک کہ اب اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار (خالد بن ولید) نے جھنڈا سنبھال لیاہے اس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے کافروں پر فتح عطا فرمائی ہے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : إِنَّ رَجُلًا کَانَ يَکْتُبُ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَارْتَدَّ عَنِ الإِسْلَامِ، وَلَحِقَ بِالْمُشْرِکِيْنَ، وَقَالَ : أَنَا أَعْلَمُکُمْ إِنْ کُنْتُ لَأَکْتُبُ مَا شِئْتُ فَمَاتَ ذَلِکَ الرَّجُلُ فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الْأَرْضَ لَمْ تَقْبِلْهُ وَقَالَ أَنَسٌ : فَأَخْبَرَنِي أَبُوْ طَلْحَةَ أَنَّهُ أَتَي الْأَرْضَ الَّتِي مَاتَ فِيْهَا فَوَجَدَهُ مَنْبُوْذًا، فَقَالَ : مَا شَأْنُ هَذَا؟ فَقَالُوْا : دَفَنَّاهُ مِرَارًا فَلَمْ تَقْبِلْهُ الْأَرْضُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 17 : أخرجه مسلم نحوه في الصحيح، کتاب : صفات المنافقين وأحکامهم، 4 / 2145، الرقم : 2781، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 120، الرقم : 12236، 13348، والبيهقي في السنن الصغري، 1 / 568، الرقم : 1054، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 381، الرقم : 1278، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 387، الرقم : 5798، وأبو المحاسن في معتصرا المختصر، 2 / 188.
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کتابت کیا کرتا تھا وہ اسلام سے مرتد ہوگیا اور مشرکوں سے جا کر مل گیا اور کہنے لگا میں تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں میں آپ کے لئے جو چاہتا تھا لکھتا تھا سو وہ شخص جب مر گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے زمین قبول نہیں کرے گی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ وہ اس زمین پر آئے جہاں وہ مرا تھا تو دیکھا اس کی لاش قبر سے باہر پڑی تھی۔ پوچھا اس کا کیا حال ہے؟ تو لوگوں نے کہا : ہم نے اسے کئی بار دفن کیا ہے مگر زمین نے اسے قبول نہیں کیا۔
الحديث رقم 17 : أخرجه مسلم نحوه في الصحيح، کتاب : صفات المنافقين وأحکامهم، 4 / 2145، الرقم : 2781، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 120، الرقم : 12236، 13348، والبيهقي في السنن الصغري، 1 / 568، الرقم : 1054، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 381، الرقم : 1278، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 387، الرقم : 5798، وأبو المحاسن في معتصرا المختصر، 2 / 188.
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کتابت کیا کرتا تھا وہ اسلام سے مرتد ہوگیا اور مشرکوں سے جا کر مل گیا اور کہنے لگا میں تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں میں آپ کے لئے جو چاہتا تھا لکھتا تھا سو وہ شخص جب مر گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے زمین قبول نہیں کرے گی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ وہ اس زمین پر آئے جہاں وہ مرا تھا تو دیکھا اس کی لاش قبر سے باہر پڑی تھی۔ پوچھا اس کا کیا حال ہے؟ تو لوگوں نے کہا : ہم نے اسے کئی بار دفن کیا ہے مگر زمین نے اسے قبول نہیں کیا۔
حدیث 1ابوداود شریف کتاب الصلوٰت جلد 1صفحہ 67
***Asif Rao***
**Sargodha**
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات
|
ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے اور برحق نبی ہیں۔ یہ بات بطور مسلم تو ہم لوگ جانتے ہیں اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لائے بغیر کوئی فرد مسلمان نہیں ہوسکتا لیکن عزیز دوستوں اگر ہم غیر مسلم لوگوں تک یہ بات پہنچائیں تو شائد وہ اس طرح یہ بات نہ سمجھیں اور نہ ہی اس پر ایمان لائیں جس طرح کہ بطور مسلم ہم بی بی آمنہ کے لال حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہت مہربان ہے اور وہ ہماری مشکلوں کو جانتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو معجزات عطا کئے تاکہ لوگ ان معجزوں کو دیکھ کر ایمان لے آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کئی معجزات عطا کئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم لوگوں کے سامنے ان معجزات کو بیان کریں اور دین اسلام کی حقانیت لوگوں تک پہنچائیں اس کے بعد جو اپنی اصلاح کرنا چاہے،جو ایمان لانا چاہے،جس کو اللہ ہدایت دینا چاہیں اس کے لئے ان معجزات کے بیان کافی ہونگے۔ نبی اکرم صلی کو اللہ نے کئی معجزات عطا کئے تھے۔ ایسے ہی ایک معجزے کا ذکر سیرت ابن ہشام،البدایہ و النہایہ ،طبقات ابن سعد جلد 14اور دیگر کتب میں ملتا ہے
طفیل بن عمرو قبیلہ دوس کے ایک معزز سردار اور معروف شاعر تھے۔ زمانہ جاہلیت میں جب وہ مکہ میں داخل ہوئے تو قریش کے نامور سرداروں نے ان کا استقبال کیا اور کہا کہ ''اے طفیل تم ہمارے شہر میں آئے ہو ہم تمہیں خوش آمدید کہتے ہیں اور تمہاری خیر خواہی کے لئے مشورہ دیتے ہیں کہ ہمارے ایک نوجوان سے بہت محتاط ہوکر رہنا ۔اس کا معاملہ اب خطرناک ہوگیا ہے۔ اس نے ہماری قوم ٹکڑے کردیئے ہیں اور ہمارا شیرازہ منتشر کردیا ہے ۔ اس کا کلام جادو کی مانند ہے جس سے باپ بیٹے،بھائی بھائی اور میاں بیوی کے درمیان پھوٹ پڑ جاتی ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ جو مصیبت ہمارے اوپر نازل ہوچکی ہے کہیں تم اور تمہاری قوم بھی اس کا شکار نہ ہوجاؤ پس آپ نہ تو اس سے کوئی کلام کریں اور نہ ہی اس کی بات سنیں۔ سرداران قریش نے ان کے اس قدر کان بھرے کہ میں انہوں نے سرداروں کی بات کو سچ جان لیا اور فیصلہ کرلیا کہ وہ نہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات سنوں گا اور نہ ہی ان سے کوئی کلام کرونگا،یہ فیصلہ کرنے کے بعد انہوں نے کانوں میں روئی ٹھونس کر حرم میں جانا شروع کیا کہ کہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جادو ان پر نہ اثر کر جائے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک صبح میں مسجد میں آیا تو کعبہ شریف کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں کھڑے دیکھا ،میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کھڑا ہوگیا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کچھ کلام میں نے سن لیا۔ یہ بہت اچھا کلام تھا میں نے اپنے آپ سے کہا '' میری ماں مجھے روئے میں نے یہ کیا طرز عمل اختیار کر رکھا ہے۔ بخدا میں عقلمند بھی ہوں،اور شاعر بھی اچھے بھلے کی خوب تمیز کرسکتا ہوں،پھر اس شخص کا کلام سننے میں کی چیز مانع ہے؟ مجھے اس کا کلام سننا چاہیے۔ اگر اچھی بات ہوئی تو قبول کرلوں گا اور اگر بری بات ہوئی تو رد کردونگا۔ طفیل مزید بیان کرتے ہیں کہ میں نے تھوڑی دیر انتظار کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوکر گھر کی جانب چلے گئے ۔میں بھی آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے ہولیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں داخل ہوگئے میں نے دستک دی اور میں بھی اندر چلا گیا۔ میں نے ''اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کی قوم نے آپ کے بارے میں بہت کچھ کہا۔ انہوں نے اتنا پروپیگنڈا کیا کہ میں اس سے متاثر ہوگیا۔ اس خوف سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میرے کانوں میں نہ پڑ جائے میں نے کانوں میں روئی ٹھونس لی۔مگر اللہ کو منظور تھا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سن لوں چنانچہ میں نے آپ کا کلام سنا اور اسے اچھا پایا ۔پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعوت کا تعارف کرائیں۔ چنانچہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی اور قرآن حکیم کی تلاوت فرمائی ،خدا کی قسم میں نے زندگی بھر اس سے بہتر بات نہ سنی تھی اور نہ اس سے زیادہ انصاف و عدل سے بھر پور کلام مجھ تک پہنچا تھا۔ طفیل کہتے ہیں کہ میں نے اسلام قبول کرلیا اور کلمہ شہادت پڑھ کر آئندہ کے لئے شہادت حق کا فریضہ سر انجام دینے کا عہد کرلیا میں نے عرض کیا کہ ''اے اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی قوم میں محترم و معزز ہوں اور میر بات بات بھی سبھی مانتے ہیں۔ اب میں اپنی قوم کے پاس واپس جارہا ہوں تو انہیں اسلام کی دعوت کیسے دونگا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے دعا کریں اللہ مجھے کوئی ایسی نشانی عطا فرما دے جو دعوت حق کے کام میں میری معاون ثابت ہو۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ''اے اللہ اسے کوئی کرامت نشانی (کرامت )عطا فرما'' میں اپنی قوم کی جانب واپس لوٹا۔ ایک پہاڑی کی چوٹی پر پہنچا جہاں قبیلے کے گھر اور آبادی نظر آتی تھی اچانک میری پیشانی پر دونوں آنکھوں کے درمیان مشعل کی طرح روشنی چمکنے لگی۔ میں نے دعا کی ''اے اللہ یہ روشنی میرے چہرے کے علاوہ کسی اور چیز میں پیدا کردی جائے کیونکہ میری قوم کے جاہل اسے مرض قرار دے کر کہیں گے کہ باپ دادا کے دین کو چھوڑ دینے کی وجہ سے یہ لاحق ہوگیا ہے'' پس وہ روشنی میرے چہرے سے میری چھڑی کے سرے پر آگئی۔ قوم نے دور سے دیکھا جیسے قندیل روشن ہو، میں بلندی سے ان کی جانب اترتا آرہا تھا اور سب لوگ دیکھ رہے تھے یہاں تک کہ اندھیری رات میں مَیں نے سفر طے کیا اور قبیلے کے درمیان اپنے گھر پہنچ گیا۔ (سیرت ابن ہشام قسم اول صفحہ 382۔الاصابہ جلد دوم۔ صفحہ 217 ۔اسد الغابہ جلد سوم صفحہ 54 ۔طبقات ابن سعد جلد 14قسم اول صفحہ 175 بحوالہ معجزاتِ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم از ولید الاعظمی عراق) |
***Asif Rao***
**Sargodha**
علم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
علم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
عصر حاضر کے چیلنجیز کا مقابلہ کرنے کے لئےہم امت مسلمہ پر لازم ہے کہ کتاب و سنت کےعلوم سے اپنے سینوں کو معمور کریں اور انوار قرآن وحدیث سے ضلالت و جہالت کی تاریکیوں کا خاتمہ کریں تاکہ دارین کی سعادتیں ہمارامقدر بنیں ،کیونکہ حق تعالی نے ہمیں اس خاتم النبین کی امت میں پیدا کیا ہے جنہیں اس نے علوم و معارف' حقائق و اسرار کے خزانے عطا فرماکر صبح قیامت تک آنے والی نسل انسانی کی رشد و ہدایت کے لئے اس خاکدان گیتی میں جلوہ گر فرمایا' سورۃ النساء آیت 113 میں ارشاد باری ہے:
وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا-
ترجمہ: اور اللہ نے آپ پر کتاب وحکمت نازل فرمائی اور اس نے آپ کو وہ سب علوم عطا کردئیے جو آپ نہیں جانتے تھے،اور یہ آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔
جامع ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم دونوں دستہائے مبارکہ میں دو کتابیں لے ہوئے برآمد ہوئے اور فرمایا :تم جانتے ہو کہ یہ دو کتابیں کیا ہیں؟ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! آپ کے بتلائے بغیر ہم نہیں جان سکتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدھے دست مبارک کی کتاب کے متعلق فرمایا کہ یہ رب العالمین کی طرف سے ایک کتاب ہے، اس میں جنتیوں کے نام اور ان کے باپ دادا اور قبیلوں کے نام ہیں اور پھر آخر میں سب کی جملہ تعداد بتلادی گئی ہے، ان میں نہ کبھی اضافہ کیا جائے گا اور نہ کمی' پھر اس کتاب کی نسبت فرمایا جو بائیں دست مبارک میں تھی: یہ رب العالمین کی طرف سے ایک کتاب ہے اس میں دوزخیوں کے نام اور ان کے آباء اور قبائل کے نام ہیں، جس کے آخر میں سب کی جملہ تعداد درج کردی گئی ہے' ان میں نہ تو کبھی اضافہ کیا جائے گا اور نہ کمی (جامع ترمذی: 2291) ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَفِى يَدِهِ كِتَابَانِ فَقَالَ : أَتَدْرُونَ مَا هَذَانِ الْكِتَابَانِ. فَقُلْنَا لاَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلاَّ أَنْ تُخْبِرَنَا. فَقَالَ لِلَّذِى فِى يَدِهِ الْيُمْنَى هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ فِيهِ أَسْمَاءُ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَسْمَاءُ آبَائِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ ثُمَّ أُجْمِلَ عَلَى آخِرِهِمْ فَلاَ يُزَادُ فِيهِمْ وَلاَ يُنْقَصُ مِنْهُمْ أَبَدًا. ثُمَّ قَالَ لِلَّذِى فِى شِمَالِهِ هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ فِيهِ أَسْمَاءُ أَهْلِ النَّارِ وَأَسْمَاءُ آبَائِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ ثُمَّ أُجْمِلَ عَلَى آخِرِهِمْ فَلاَ يُزَادُ فِيهِمْ وَلاَ يُنْقَصُ مِنْهُمْ أَبَدًا-
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ا لکٹرانک میڈیا کے ذریعہ لمحہ بھر میں ایک مقام کی خبر ساری دنیا میں پہنچ جاتی ہے اور میڈیا کی وساطت سے پروگرامز (Live) نشر کئے جاتے ہیں'قربان جائیں حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اعجاز علمی پر کہ آپ نے کسی ظاہری وسائل کے بغیر محض بہ عطائے خداوندی کائنات پست و بالا میں ہونے والے واقعات کی خبر دی۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک شام میں ہونے والے ''معرکہ موتہ'' کی ترتیب وار خبر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مدینہ منورہ میںعطا فرمائی ' صحیح بخاری شریف میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
عَنْ أَنَسٍ رضى الله عنه أَنَّ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم نَعَى زَيْدًا وَجَعْفَرًا وَابْنَ رَوَاحَةَ لِلنَّاسِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَهُمْ خَبَرُهُمْ ، فَقَالَ أَخَذَ الرَّايَةَ زَيْدٌ فَأُصِيبَ ، ثُمَّ أَخَذَ جَعْفَرٌ فَأُصِيبَ ، ثُمَّ أَخَذَ ابْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِيبَ ، وَعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ ، حَتَّى أَخَذَ سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ حَتَّى فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ .
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید ' حضرت جعفر اور حضرت ابن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی شہادت کی خبر' ان کے بارے میں وہاں سے باضابطہ اطلاع آنے سے قبل ہی صحابہ کو عطافرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پرچم اسلام کو زید رضی اللہ عنہ نے لیا اور وہ شہید ہوگئے' پھر جعفر رضی اللہ عنہ نے پرچم اسلام تھام لیا اور جام شہادت نوش کرلیا' پھر ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے عَلم اسلام سنبھالا اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چشمان اقدس سے آنسو رواں تھے۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا) یہاں تک کہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد ابن ولید رضی اللہ عنہ نے اسلام کا جھنڈا لیا اور اللہ نے اہل اسلام کو فتح و نصرت سے ہمکنار کیا۔ (صحیح بخاری ' حدیث نمبر: 3757)۔
مسند امام احمد میں روایت ہے:
عَنْ مُنْذِرٍ حَدَّثَنَا أَشْيَاخٌ مِنَ التَّيْمِ قَالُوا قَالَ أَبُو ذَرٍّ لَقَدْ تَرَكَنَا مُحَمَّدٌ صلى الله عليه وسلم وَمَا يُحَرِّكُ طَائِرٌ جَنَاحَيْهِ فِى السَّمَاءِ إِلاَّ أَذْكَرَنَا مِنْهُ عِلْماً.
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حال ميں ہمیں رخصت کیا کہ فضا میں محو پرواز ہر قسم کے پرندوںتک کے بارے میں آپ نے ہمیں آگہی بخشی ہے(مسند امام احمد' حدیث نمبر: 21970)۔
صحیح بخاری شریف میں روایت ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کا گذر دو قبروں پر سے ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ان دونوں کو عذاب ہورہا ہے اور عذاب کسی ایسی وجہ سے نہیں ہورہا ہے جس سے بچنا دشوار تھا 'ان میں سے ایک تو پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلخوری کرتا پھرتا تھا، پھر آپ نے ایک سبز شاخ منگواکر اس کے دو حصے کئے اور ہر ایک ٹکڑا ہر قبر پر لگادیا' صحابہ نے عرض کیا: اس کی حکمت کیا ہے؟ یا رسول اللہ ! ارشاد فرمایا: جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی ۔ (صحیح بخاری شریف،کتاب الجنائز، باب الجريد على القبر،حدیث نمبر:1361)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضى الله عنهما ، عَنِ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ مَرَّ بِقَبْرَيْنِ يُعَذَّبَانِ فَقَالَ : إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ ۔ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِى كَبِيرٍ ،أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لاَ يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ ، وَأَمَّا الآخَرُ فَكَانَ يَمْشِى بِالنَّمِيمَةِ . ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا بِنِصْفَيْنِ ، ثُمَّ غَرَزَ فِى كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً . فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ ، لِمَ صَنَعْتَ هَذَا ؟ فَقَالَ : لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا .
اس موقع پر آپ نے بیک وقت ماضی ، حال و مستقبل کی خبر دی کہ حالیہ قبر میں ہورہے عذاب کو بھی ملاحظہ فرمایا اور ماضی میں کئے گئے ان کی خطاؤں کی بھی نشاندہی فرمائی اور مستقبل کے بارے میں فرمایا کہ جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں اُن کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی
''حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (معراج کی رات) میرا رب میرے پاس (اپنی شان کے لائق) نہایت حسین صورت میں آیا اور فرمایا : یا محمد! میں نے عرض کیا : میرے پروردگار! میں حاضر ہوں بار بار حاضر ہوں۔ فرمایا : عالمِ بالا کے فرشتے کس بات میں جھگڑتے ہیں؟ میں نے عرض کیا : اے میرے پروردگار! میں نہیں جانتا۔ پس اﷲ تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا اور میں نے اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس کی۔ اور میں وہ سب کچھ جان گیا جو کچھ مشرق و مغرب کے درمیان ہے۔''
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ہی مروی ایک اور روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور میں جان گیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی : ''اور اسی طرح ہم ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہتیں (یعنی عجائباتِ خلق) دکھا رہے ہیں اور (یہ) اس لئے کہ وہ عین الیقین والوں میں سے ہو جائے۔'' (الانعام، 6 : 75)۔
''اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور مجھ پر ہر شے کی حقیقت ظاہر کر دی گئی جس سے میں نے (سب کچھ) جان لیا۔''
''حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس مجھ سے دنیا و آخرت کے بارے میں کیئے جانے والے سوالات کے جوابات میں نے اسی مقام پر جان لئے۔''
''اور ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور میں نے دنیا و آخرت کی ہر ایک شے کی حقیقت جان بھی لی اور دیکھ بھی لی۔''
''اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس مجھ سے جب بھی کسی چیز کے متعلق سوال کیا گیا تو میں نے اسے جان لیا۔ پس اس کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھ سے کسی شے کے متعلق سوال کیا گیا ہو اور میں اسے جانتا نہ ہوں۔'
عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه في رواية طويلة أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم شَاوَرَ، حِيْنَ بَلَغَنَا إِقَبَالُ أَبِي سُفْيَانَ، وَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ رضي الله عنه فَقَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِيْضَهَا الْبَحْرَ لَأَخَضْنَاهَا. وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَکْبَادَهَا إلَي بَرْکِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا. قَالَ : فَنَدَبَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم النَّاسَ، فَانْطَلَقُوْا حَتَّي نَزَلُوْا بَدْرًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ قَالَ : وَيَضَعُ يَدَهُ عَلَي الْأَرْضِ، هَاهُنَا وَهَاهُنَا. قَالَ : فَمَا مَاتَ أَحَدُهُمْ عَنْ مَوْضِعِ يَدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاوُدَ.
الحديث رقم 15 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الجهاد والسير، باب : غزوة بدر، 3 / 1403، الرقم : 1779، ونحوه في کتاب : الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب : عرض مقعد الميت من الجنة أو النار عليه وإثبات عذاب القبر والتعوذ منه، 4 / 2202، الرقم : 2873، وأبو داود في السنن، کتاب : الجهاد، باب : في الأسير ينال منه ويضرب ويقرن، 3 / 58، الرقم : 2071، والنسائي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : أرواح المؤمنين، 4 / 108، الرقم : 2074، وفي السنن الکبري، 1 / 665، الرقم؛ 2201، وابن حبان في الصحيح، 11 / 24، الرقم : 4722، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 219، الرقم : 13320، والبزار في المسند، 1 / 340، الرقم : 222، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 362، الرقم : 36708، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 219، الرقم : 8453، وفي المعجم الصغير، 2 / 233، الرقم : 1085، وأبو يعلي في المسند، 6 / 69، الرقم : 3322، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 102، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 381، الرقم : 5871.
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ہمیں ابو سفیان کے (قافلہ کی شام سے) آنے کی خبر پہنچی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا : (یا رسول اللہ!) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر آپ ہمیں سمندر میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیں تو ہم سمندر میں گھوڑے ڈال دیں گے، اگر آپ ہمیں برک الغماد پہاڑ سے گھوڑوں کے سینے ٹکرانے کا حکم دیں تو ہم ایسا بھی کریں گے۔ تب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو بلایا لوگ آئے اور وادی بدر میں اُترے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ فلاں کافر کے گرنے کی جگہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین پر اس جگہ اور کبھی اس جگہ دستِ اقدس رکھتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر (دوسرے دن) کوئی کافر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
الحديث رقم 15 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الجهاد والسير، باب : غزوة بدر، 3 / 1403، الرقم : 1779، ونحوه في کتاب : الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب : عرض مقعد الميت من الجنة أو النار عليه وإثبات عذاب القبر والتعوذ منه، 4 / 2202، الرقم : 2873، وأبو داود في السنن، کتاب : الجهاد، باب : في الأسير ينال منه ويضرب ويقرن، 3 / 58، الرقم : 2071، والنسائي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : أرواح المؤمنين، 4 / 108، الرقم : 2074، وفي السنن الکبري، 1 / 665، الرقم؛ 2201، وابن حبان في الصحيح، 11 / 24، الرقم : 4722، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 219، الرقم : 13320، والبزار في المسند، 1 / 340، الرقم : 222، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 362، الرقم : 36708، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 219، الرقم : 8453، وفي المعجم الصغير، 2 / 233، الرقم : 1085، وأبو يعلي في المسند، 6 / 69، الرقم : 3322، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 102، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 381، الرقم : 5871.
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ہمیں ابو سفیان کے (قافلہ کی شام سے) آنے کی خبر پہنچی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا : (یا رسول اللہ!) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر آپ ہمیں سمندر میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیں تو ہم سمندر میں گھوڑے ڈال دیں گے، اگر آپ ہمیں برک الغماد پہاڑ سے گھوڑوں کے سینے ٹکرانے کا حکم دیں تو ہم ایسا بھی کریں گے۔ تب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو بلایا لوگ آئے اور وادی بدر میں اُترے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ فلاں کافر کے گرنے کی جگہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین پر اس جگہ اور کبھی اس جگہ دستِ اقدس رکھتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر (دوسرے دن) کوئی کافر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّّ صلي الله عليه وآله وسلم نَعَي زَيْدًا وَجَعْفَرًا وَابْنَ رَوَاحَةَ رضي الله عنهم لِلنَّاسِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَهُمْ خَبَرُهُمْ، فَقَالَ : أَخَذَ الرَّايَةَ زَيْدٌ فَأُصِيْبَ، ثُمَّ أَخَذَ جَعْفَرٌ فَأُصِيْبَ، ثُمَّ أَخَذَ ابْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِيْبَ. وَعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ حَتَّي أَخَذَ الرَّايَةَ سَيْفٌ مِنْ سُيُوْفِ اﷲِ، حَتَّي فَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِمْ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 16 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : غزوة مؤته من أرض الشام، 4 / 1554، الرقم : 4014، وفي کتاب : الجنائز، باب : الرجل ينعي إلي أهل الميت بنفسه، 1 / 420، الرقم : 1189، وفي کتاب : الجهاد، باب : تمني الشهادة، 3 / 1030، الرقم : 2645، وفي باب : من تأمر في الحرب من غير إمرة إذا خاف العدو، 3 / 1115، الرقم : 2898، وفي کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1328، الرقم : 3431، وفي کتاب : فضائل الصحابة، باب : مناقب خالد بن الوليد رضي الله عنه، 3 / 1372، الرقم : 3547، ونحوه النسائي في السنن الکبري، 5 / 180، الرقم : 8604، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 204، الرقم : 1750، والحاکم في المستدرک، 3 / 337، الرقم : 5295، وقال : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ اْلإِسْنَادِ، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 105، الرقم : 1459 - 1461، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، کتاب : أحوال القيامة وبداء الخلق، باب : في المعجزات، الفصل الأول، 2 / 384، الرقم : 5887.
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت عبد اﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنھم کے متعلق خبر آنے سے پہلے ہی ان کے شہید ہو جانے کے متعلق لوگوں کو بتا دیا تھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اب جھنڈا زید نے سنبھالا ہوا ہے لیکن وہ شہید ہوگئے۔ اب جعفر نے جھنڈا سنبھال لیا ہے اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ اب ابن رواحہ نے جھنڈا سنبھالا ہے اور وہ بھی جام شہادت نوش کرگئے۔ یہ فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مبارک اشک بار تھیں۔ (پھر فرمایا : ) یہاں تک کہ اب اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار (خالد بن ولید) نے جھنڈا سنبھال لیاہے اس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے کافروں پر فتح عطا فرمائی ہے۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 16 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : غزوة مؤته من أرض الشام، 4 / 1554، الرقم : 4014، وفي کتاب : الجنائز، باب : الرجل ينعي إلي أهل الميت بنفسه، 1 / 420، الرقم : 1189، وفي کتاب : الجهاد، باب : تمني الشهادة، 3 / 1030، الرقم : 2645، وفي باب : من تأمر في الحرب من غير إمرة إذا خاف العدو، 3 / 1115، الرقم : 2898، وفي کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1328، الرقم : 3431، وفي کتاب : فضائل الصحابة، باب : مناقب خالد بن الوليد رضي الله عنه، 3 / 1372، الرقم : 3547، ونحوه النسائي في السنن الکبري، 5 / 180، الرقم : 8604، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 204، الرقم : 1750، والحاکم في المستدرک، 3 / 337، الرقم : 5295، وقال : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ اْلإِسْنَادِ، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 105، الرقم : 1459 - 1461، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، کتاب : أحوال القيامة وبداء الخلق، باب : في المعجزات، الفصل الأول، 2 / 384، الرقم : 5887.
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت عبد اﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنھم کے متعلق خبر آنے سے پہلے ہی ان کے شہید ہو جانے کے متعلق لوگوں کو بتا دیا تھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اب جھنڈا زید نے سنبھالا ہوا ہے لیکن وہ شہید ہوگئے۔ اب جعفر نے جھنڈا سنبھال لیا ہے اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ اب ابن رواحہ نے جھنڈا سنبھالا ہے اور وہ بھی جام شہادت نوش کرگئے۔ یہ فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مبارک اشک بار تھیں۔ (پھر فرمایا : ) یہاں تک کہ اب اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار (خالد بن ولید) نے جھنڈا سنبھال لیاہے اس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے کافروں پر فتح عطا فرمائی ہے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : إِنَّ رَجُلًا کَانَ يَکْتُبُ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَارْتَدَّ عَنِ الإِسْلَامِ، وَلَحِقَ بِالْمُشْرِکِيْنَ، وَقَالَ : أَنَا أَعْلَمُکُمْ إِنْ کُنْتُ لَأَکْتُبُ مَا شِئْتُ فَمَاتَ ذَلِکَ الرَّجُلُ فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الْأَرْضَ لَمْ تَقْبِلْهُ وَقَالَ أَنَسٌ : فَأَخْبَرَنِي أَبُوْ طَلْحَةَ أَنَّهُ أَتَي الْأَرْضَ الَّتِي مَاتَ فِيْهَا فَوَجَدَهُ مَنْبُوْذًا، فَقَالَ : مَا شَأْنُ هَذَا؟ فَقَالُوْا : دَفَنَّاهُ مِرَارًا فَلَمْ تَقْبِلْهُ الْأَرْضُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 17 : أخرجه مسلم نحوه في الصحيح، کتاب : صفات المنافقين وأحکامهم، 4 / 2145، الرقم : 2781، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 120، الرقم : 12236، 13348، والبيهقي في السنن الصغري، 1 / 568، الرقم : 1054، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 381، الرقم : 1278، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 387، الرقم : 5798، وأبو المحاسن في معتصرا المختصر، 2 / 188.
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کتابت کیا کرتا تھا وہ اسلام سے مرتد ہوگیا اور مشرکوں سے جا کر مل گیا اور کہنے لگا میں تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں میں آپ کے لئے جو چاہتا تھا لکھتا تھا سو وہ شخص جب مر گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے زمین قبول نہیں کرے گی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ وہ اس زمین پر آئے جہاں وہ مرا تھا تو دیکھا اس کی لاش قبر سے باہر پڑی تھی۔ پوچھا اس کا کیا حال ہے؟ تو لوگوں نے کہا : ہم نے اسے کئی بار دفن کیا ہے مگر زمین نے اسے قبول نہیں کیا۔
حدیث 1ابوداود شریف کتاب الصلوٰت جلد 1صفحہ 67 الحديث رقم 17 : أخرجه مسلم نحوه في الصحيح، کتاب : صفات المنافقين وأحکامهم، 4 / 2145، الرقم : 2781، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 120، الرقم : 12236، 13348، والبيهقي في السنن الصغري، 1 / 568، الرقم : 1054، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 381، الرقم : 1278، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 387، الرقم : 5798، وأبو المحاسن في معتصرا المختصر، 2 / 188.
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کتابت کیا کرتا تھا وہ اسلام سے مرتد ہوگیا اور مشرکوں سے جا کر مل گیا اور کہنے لگا میں تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں میں آپ کے لئے جو چاہتا تھا لکھتا تھا سو وہ شخص جب مر گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے زمین قبول نہیں کرے گی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ وہ اس زمین پر آئے جہاں وہ مرا تھا تو دیکھا اس کی لاش قبر سے باہر پڑی تھی۔ پوچھا اس کا کیا حال ہے؟ تو لوگوں نے کہا : ہم نے اسے کئی بار دفن کیا ہے مگر زمین نے اسے قبول نہیں کیا۔
***Asif Rao***
**Sargodha**
27 Oct 2011
ایک صحابی کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا
ایک صحابی کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا
کائنات کا سارا حسن و جمال نبی آخر الزماں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور میں سمٹ آیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت سے مشرف ہونے والا ہر شخص جمالِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس طرح کھو جاتا کہ کسی کو آنکھ جھپکنے کا یارا بھی نہ ہوتا اور نگاہیں اٹھی کی اٹھی رہ جاتیں۔
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں :
کان رجل عند النبی صلي الله عليه وآله وسلم ينظر إليه لا يطرف.
حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے چہرۂ انور) کو (اِس طرح ٹکٹکی باندھ کر) دیکھتا رہتا کہ (وہ اپنی آنکھ تک نہ جھپکتا)۔''
حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس جاں نثار صحابی کی یہ حالت دیکھ کر فرمایا :
ما بالک؟
''اِس( طرح دیکھنے) کا سبب کیا ہے؟''
اس عاشقِ رسول صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :
بأبی و أمی! أتمتع من النظر إليک.
قاضی عياض، الشفاء، 2 : 2566
قسطلانی، المواهب اللدنيه، 2 : 94
قسطلانی، المواهب اللدنيه، 2 : 94
''میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ کے چہرۂ انور کی زیارت سے لطف اندوز ہو تا ہوں۔''
اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ جاں نثاران مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خودسپردگی کی ایک عجیب کیفیت طاری ہو جاتی اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال میں اس طرح کھو جاتے کہ دنیا کی ہر شے سے بھی بے نیاز ہو جاتے۔
***Asif Rao***
**Sargodha**
Subscribe to:
Posts (Atom)