عالئ مرتبت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے حضرات شیخین سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہما کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ اُنہیں قربِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دفن ہونا نصیب ہو، تاکہ عالم برزخ میں بھی قرب و وصالِ محبوب کے لمحات سے ان کی روحوں کو تسکین ملے۔ یارِ غار سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اس نیک خواہش کے بارے مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
لما حضرت أبابکر الوفاة أقعدنی عند رأسه و قال لی : يا علي! إذا أنا مت فغسلني بالکف الذي غسلت به رسول اﷲ و حنطوني و اذهبوا بي إلي البيت الذي فيه رسول اﷲ فاستأذنوا فإن رأيتم الباب قد يفتح فادخلوا بي وإلا فردوني إلي مقابر المسلمين حتي يحکم اﷲ بين عباده. قال : فاغسل و کفن و کنت أول من يأذن إلي الباب فقلت : يا رسول اﷲ! هذا أبوبکر مستأذن، فرأيت الباب قد يفتح، و سمعت قائلا يقول : ادخلوا الحبيب إلي حبيبه فإن الحبيب إلي الحبيب مشتاق.
حلبي، السيرة الحلبية، 3 : 493
سيوطي، الخصائص الکبریٰ، 2 : 492
ابن عساکر، تاريخ دمشق، 30 : 436
سيوطي، الخصائص الکبریٰ، 2 : 492
ابن عساکر، تاريخ دمشق، 30 : 436
’’جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے مجھے اپنے سرہانے بٹھایا اور فرمایا : اے علی! جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھے اس ہاتھ سے غسل دینا جس سے تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا تھا اور مجھے خوشبو لگانا اور مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس کے پاس لیجانا، اگر تم دیکھو کہ دروازہ کھول دیا گیا ہے تو مجھے وہاں دفن کر دینا ورنہ واپس لا کر عامۃ المسلمین کے قبرستان میں دفن کر دینا تاوقتیکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ کو غسل اور کفن دیا گیا اور میں نے سب سے پہلے روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر پہنچ کر اجازت طلب کی میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ابوبکر آپ سے داخلہ کی اجازت مانگ رہے ہیں، پھر میں نے دیکھا کہ روضہ اقدس کا دروازہ کھول دیا گیا اور آواز آئی۔ حبیب کو اس کے حبیب کے ہاں داخل کر دو بے شک حبیب ملاقاتِ حبیب کے لئے مشتاق ہے۔‘‘
اسی طرح امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی اپنے آقائے کریم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کے بہت ہی زیادہ خواہاں تھے۔ جب قاتلانہ حملے کے نتیجے میں آپ کی وفات کا وقت قریب آگیا تو آپ نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کوسیدہ عائشہ رضی اﷲ عہنا کے پاس اجازت لینے کے لئے بھیجا اگرچہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا خود یہ خواہش رکھتی تھیں اور انہوں نے فرمایا ہوا تھا کہ وہ اس جگہ کو اپنی تدفین کے لئے پسند کرتی ہیں مگر وہ فرمانے لگیں کہ اب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے اوپر ترجیح دیتی ہوں۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ واپس آئے اور اپنے والد کو خوشخبری سنائی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
ما کان شئ أهم إليّ من ذالک المضجع فإذا قبضت فاحملونی ثم سلموا، ثم قل : يستأذن عمر بن الخطاب فإن أذنت لي فادفنوني، و إلا فردوني إلي مقابر المسلمين.
بخاري، الصحيح، 1 : 469، کتاب الجنائز، رقم : 1328
ابن حبان، الصحيح، 15 : 353
بيهقي، السنن الکبریٰ، 4 : 58
ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 290
نووي، تہذيب الاسماء، 2 : 332
شوکاني، نيل الاوطار، 6 : 159
ابن حبان، الصحيح، 15 : 353
بيهقي، السنن الکبریٰ، 4 : 58
ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 290
نووي، تہذيب الاسماء، 2 : 332
شوکاني، نيل الاوطار، 6 : 159
یہ روایت حاکم نے’ المستدرک( 3 : 99، رقم : 4519 )‘ میں ابن ابی شیبہ نے’ المصنف (7 : 440، رقم : 37074)‘میں اور ابن سعدنے ’الطبقات الکبریٰ ( 3 : 363) میں رواۃ اور الفاظ کے قدرے اختلاف کے ساتھ بیان کی ہے۔
’’میرے نزدیک اس آرام گاہ سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں ہے۔ جب میں انتقال کرجاؤں تو مجھے اٹھا کر (اس جگہ پر) لے جانا، سلام عرض کرنا اور عرض کرنا کہ عمر بن خطاب اجازت چاہتا ہے اگر وہ (سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا) اجازت دے دیں تو دفن کر دینا ورنہ مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔‘‘
سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی اس خواہش کی توجیہ صرف یہی ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب دفن ہونا باعث برکت سمجھتے تھے
0 comments:
Post a Comment