۔ پسینہ مبارک سے حصولِ برکت
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسد اطہر سے ہمیشہ پاکیزہ خوشبو آتی تھی، صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے اس خوشبو کو مشک و عنبر اور پھول کی خوشبو سے بڑھ کر پایا۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اپنے لئے، اپنے بچوں کے لئے، اور شادی بیاہ کے موقع پر اپنی بیٹیوں کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک کو حاصل کرتے، اس سے برکت کی امید رکھتے اور بڑے اہتمام کے ساتھ اس متاعِ عزیز کو سنبھال کر رکھتے۔
حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے چمڑے کا ایک گدا بچھایا کرتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہاں اسی گدے پر قیلولہ فرمایا کرتے تھے۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ کا) بیان ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سونے سے بیدار ہوکر اٹھ کھڑے ہوتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ مبارک اور موئے مبارک کو ایک شیشی میں جمع کرتیں پھر ان کو خوشبو کے برتن میں ڈال دیتیں۔
حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
فلما حضر أنس بن مالک الوفاةُ أوصیٰ إلي أن يُجْعل فی حنوطه من ذالک السُّکِ، قال : فجُعل فی حنوطه.
بخاری، الصحيح، 5 : 2316، کتاب الاستئذان، رقم : 5925
شوکانی، نيل الاوطار، 1 : 69
شوکانی، نيل الاوطار، 1 : 69
(٭) حنوط : وہ خوشبو جو کافور اور صندل ملا کر میت اور کفن کے لئے تیار کی جاتی ہے۔
’’جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے وصیت فرمائی کہ ان کے حنوط(٭) میں اس خوشبو کو ملایا جائے۔ حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے حنوط میں وہ خوشبو ملائی گئی۔‘‘
2۔ حضرت حمید سے روایت ہے کہ :
توفی أنس بن مالک فجعل فی حنوطه سکة أو سک و مسکة فيها من عرق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم۔
طبراني، المعجم الکبير، 1 : 249، رقم : 715
بيهقي، السنن الکبري، 3 : 406، رقم : 6500
هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 21 (امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں)
بيهقي، السنن الکبري، 3 : 406، رقم : 6500
هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 21 (امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں)
’’جب حضرت انس رضی اللہ عنہ نے وفات پائی تو ان کے حنوط میں ایسی خوشبو ملائی گئی جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینے کی خوشبو تھی۔‘‘
3۔ اسی طرح دوسری روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور قیلولہ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسینہ آیا اور میری والدہ ایک شیشی لیکر آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ پونچھ پونچھ کر اس میں ڈالنے لگیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
يا أم سليم! ما هذا الذي تصنعين؟ قالت : هذا عرقک نجعله في طِيبِنا و هو مِن أطيب الطيب.
مسلم، الصحيح، 4 : 1815، کتاب الفضائل، رقم : 2331
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 136، 287، رقم : 12419، 14091
نسائي، السنن، 8 : 218، کتاب الزينة، رقم : 5371
نسائي، السنن الکبری، 5 : 506، رقم : 9806
يوسف بن موسیٰ، معتصر المختصر، 1 : 17
ابو يعلي، المسند، 6 : 409، رقم : 3769
ذهبي، سير اعلام النبلاء، 2 : 308
عبد بن حميد، المسند، 1 : 378، رقم : 1268
طبراني، المعجم الکبير، 25 : 119، رقم : 289
اصبهاني، دلائل النبوة، 1 : 59، رقم : 40
ابو نعيم، حلية الاولياء، 2 : 61
بيهقي، شعب الايمان، 2 : 154، رقم : 1429
عسقلاني، فتح الباري، 11 : 72
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 136، 287، رقم : 12419، 14091
نسائي، السنن، 8 : 218، کتاب الزينة، رقم : 5371
نسائي، السنن الکبری، 5 : 506، رقم : 9806
يوسف بن موسیٰ، معتصر المختصر، 1 : 17
ابو يعلي، المسند، 6 : 409، رقم : 3769
ذهبي، سير اعلام النبلاء، 2 : 308
عبد بن حميد، المسند، 1 : 378، رقم : 1268
طبراني، المعجم الکبير، 25 : 119، رقم : 289
اصبهاني، دلائل النبوة، 1 : 59، رقم : 40
ابو نعيم، حلية الاولياء، 2 : 61
بيهقي، شعب الايمان، 2 : 154، رقم : 1429
عسقلاني، فتح الباري، 11 : 72
’’اے ام سلیم! تم یہ کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا : یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ ہے جس کو ہم اپنی خوشبو میں ڈالیں گے اور یہ سب سے اچھی خوشبو ہے۔‘‘
4۔ ایک اور روایت میں حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنہا نے پسینہ مبارک جمع کرنے کی وجہ برکت کا حصول بتایا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا :
ما تصنعين يا ام سليم؟ فقالت : يا رسول اﷲ! نرجو برکته لصبياننا. قال : أصبت.
مسلم، الصحيح، 4 : 1815، کتاب الفضائل، رقم : 2331
احمد بن حنبل، المسند : 3 : 226، رقم : 13390
بيهقي، السنن الکبریٰ، 1 : 254، رقم : 1130
عسقلاني، فتح الباري، 11 : 72
احمد بن حنبل، المسند : 3 : 226، رقم : 13390
بيهقي، السنن الکبریٰ، 1 : 254، رقم : 1130
عسقلاني، فتح الباري، 11 : 72
’’اے ام سلیم! تم کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے کہا یا رسول اﷲ! ہم اس میں اپنے بچوں کے لئے برکت کی امید رکھتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہاری امید درست ہے۔‘‘
0 comments:
Post a Comment