31 Dec 2011

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی مذہبی رواداری

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی مذہبی رواداری
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت بھی زیادہ تر پر آشوب اور پرشور رہا‘ ان کی خلافت کی مدت پانچ سال رہی‘ لڑائیوں اوربغاوتوں کی بدولت ان کو وہ سکون حاصل نہ ہوسکاجو حکمرانی کیلئے ضروری ہے مگر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ میں تربیت پائی تھی اس لیے زہد‘ تقویٰ‘ عبادت‘ تواضع‘ انفاق فی سبیل اللہ اور حسن سلوک میں جو اعلیٰ نمونے پیش کیے جاسکتے ہیں وہ ان کی زندگی میں ملتے ہیں‘ شجاعت میں کوئی معاصران کا حریف نہ تھا مگر وہ برابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر عمل فرماتے رہے کہ بہادر وہ نہیں ہے جو دشمن کو بچھاڑ دے بلکہ وہ ہے جو اپنے نفس کو زیر کرے۔ ان کی زندگی کا یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ ایک لڑائی میں ایک یہودی کو پچھاڑ کر اس کے سینے پر سوار ہوگئے اور اس کو ہلاک کرنا چاہتے تھے کہ اس نے ان کے منہ پر تھوک دیا تو یکایک اس کے سینے پر سے اتر کر علیحدہ ہوگئے‘ یہودی نے متعجب ہوکر اس طرح علیحدہ ہونے کی وجہ پوچھی تو بتایا کہ پہلے تمہیں اللہ کی خاطر ہلاک کرنا چاہتا تھا تم نے میرے منہ پر تھوکا تو اب میں تم کو ہلاک کرتا تو اپنے نفس کی خاطر کرتا جو صحیح نہیں ہوتا‘ یہ سن کر یہودی مسلمان ہوگیا۔
وہ اپنے حسن سلوک کی وجہ سے بے حد مقبول رہے‘ ان کے اسی وصف پر بھروسہ کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے اشاعت اسلام کاکام برابر لیتے رہے‘ فتح مکہ کے بعد حضرت خالدرضی اللہ تعالیٰ عنہ بنوخزیمہ میں تبلیغ اسلام کیلئے مامور ہوئے اس قبیلہ نے پہلے تو اسلام قبول کرلیا پھر منحرف ہوگیا‘ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے ان میں سے کچھ لوگوں کو قید اور کچھ کو قتل کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ ہوا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حسن معاملہ کی کارکردگی پر پورا اعتماد تھا‘ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلطی کی تلافی کیلئے ان کو بنی خزیمہ کے پاس بھیجا‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رواداری سے کام لیا‘ قیدیوں کو رہا کردیا اور مقتولین کے وارثوں کو خون بہا دیا۔ (فتح الباری ج8 ص 46)

14 Dec 2011

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا



ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہمدم سید المرسلین محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ، جگر گوشہ خلیفة المسلمین، شمع کاشانہء نبوت، آفتاب رسالت کی کرن، گلستان نبوت کی مہک، مہر ووفا اور صدق وصفا کی دلکش تصویر، خزینہ ئِ رسالت کا انمول ہیرا، جس کی شان میں قرآنی آیات نازل ہوئیں ۔ جس کو تعلیمات نبوی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر عبور حاصل تھا ۔ جسے اپنی زندگی میں لسان رسالت سے جنت کی بشارت ملی۔ جسے ازواج مطہرات میں ایک بلند اور قابل رشک مقام حاصل تھا۔ جو فقاہت، ثقاہت ، امانت ودیانت کے اعلیٰ معیار پر فائز تھیں۔

ولادت :
حضرت ام رومان کا پہلا نکاح عبداللہ ازدی سے ہوا تھا۔ عبداللہ کے انتقال کے بعد وہ ابوبکر کے عقد میں آئیں ۔ حضرت ابوبکر کے دو بچے تھے ۔ عبدالرحمن اور عائشہ ۔حضرت عائشہ کی تاریخ ولادت سے تاریخ وسیر کی تمام کتابیں خاموش ہیں ۔ ان کی ولادت کی صحیح تاریخ نبوت کے پانچویں سال کا آخری حصہ ہے۔

نام :
نام عائشہ تھا ۔ ان کا لقب صدیقہ تھا ۔ ام المومنین ان کا خطاب تھا ۔ نبی مکرم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنت الصدیق سے بھی خطاب فرمایا ہے ۔اور کبھی کبھار حمیرا سے بھی پکارتے تھے۔

کنیت :
عرب میں کنیت شرافت کا نشان ہے ۔ چونکہ حضرت عائشہ کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی۔ اس لیے کوئی کنیت بھی نہ تھی۔ ایک دفعہ آنحضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے حسرت کے ساتھ عرض کیا کہ اور عورتوں نے تو اپنی سابق اولادوں کے نام پر کنیت رکھ لی ہے ، میں اپنی کنیت کس کے نام پر رکھوں؟ فرمایا : اپنے بھانجے عبداللہ کے نام پر رکھ لو''۔
چنانچہ اسی دن سے ام عبداللہ کنیت قرار پائی۔

نکاح:
ہجرت سے ٣ برس پہلے سید المرسلین سے شادی ہوئی۔ ٩ برس کی عمر میں رخصتی ہوئی ۔ سیدہ عائشہ کے علاوہ کسی کنواری خاتون سے نبی کریم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے شادی نہیں کی ۔ ابھی ان کا بچپن ہی تھا کہ جبریل علیہ السلام نے ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر ان کی تصویر رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو دکھلائی اور بتایا کہ یہ آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی دنیا وآخرت میں رفیقہ ئِ حیات ہے۔ سیدہ عائشہ کا مہر بہت زیادہ نہ تھا صرف 500 درہم تھا ۔

فضائل وکمالات:
حضرت عمرو بن عاص نے ایک دفعہ رسول اقدس محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا : یا رسول اللہ ! آپ کو دنیا میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ فرمایا : ''عائشہ'' عرض کی مردوں میں کون ہے؟ فرمایا : اس کا باپ ۔ ایک دفعہ حضرت عمر نے اپنی بیٹی حضرت حفصہ ام المومنین کو سمجھاتے ہوئے کہا :بیٹی عائشہ کی ریس نہ کیا کرو ، رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے دل میں اس کی قدر ومنزلت بہت زیادہ ہے ۔
رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :
''مردوں میں بہت کامل گزرے لیکن عورتوں میں سے مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون کے سوا کوئی کامل نہ ہوئی اور عائشہ کو عورتوں پر اسی طرح فضیلت ہے جس طرح ثرید کو تمام کھانوں پر''۔
امام ذہبی لکھتے ہیں کہ سیدہ عائشہ پوری امت کی عورتوں سے زیادہ عالمہ ، فاضلہ ، فقیہہ تھیں ۔
عروہ بن زبیر کا قول ہے : میں نے حرام وحلال ، علم وشاعری اور طب میں ام المومنین عائشہ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں فخر نہیں کرتی بلکہ بطور واقعہ کے کہتی ہوں کہ اللہ نے دنیا میں ٩ باتیں ایسی صرف مجھ کو عطا کی ہیں جو میرے سوا کسی کو نہیں ملیں ۔
1۔ خواب میں فرشتے نے آنحضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے میری صورت پیش کی۔
2۔ جب میں سات برس کی تھی تو آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا ۔
3۔ جب میرا سن ٩ برس کا ہوا تو رخصتی ہوئی ۔
4۔ میرے سوا کوئی کنواری بیوی آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں نہ تھی ۔
5۔ آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم جب میرے بستر پر ہوتے تب بھی وحی آتی تھی ۔
6۔ میں آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبوب ترین بیوی تھی ۔
7۔ میری شان میں قرآن کی آیتیں اتریں ۔
8۔ میں نے جبریل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔
9۔ آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے میری گود میں سر رکھے ہوئے وفات پائی۔

حضرت عائشہ اور احادیث نبوی :
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کو علمی صداقت اور احادیث روایت کرنے کے حوالے سے دیانت وامانت میں امتیاز حاصل تھا ۔سیدہ عائشہ کا حافظہ بہت قوی تھا ۔ جس کی وجہ سے وہ حدیث نبوی کے حوالے سے صحابہ کرام کے لیے بڑا اہم مرجع بن چکی تھیں ۔ حضرت عائشہ حدیث حفظ کرنے اور فتویٰ دینے کے اعتبار سے صحابہ کرام سے بڑھ کر تھیں۔سیدہ عائشہ نے دو ہزار دو سو دس (2210) احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی ۔
دور نبوی کی کوئی خاتون ایسی نہیں جس نے سیدہ عائشہ سے زیادہ رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی ہو ۔
صدیقہ کائنات سے ایک سو چوہتر (174) احادیث ایسی مروی ہیں جو بخاری ومسلم میں ہیں ۔

وفات :
سن ٥٨ ہجری کے ماہ رمضان میں حضرت عائشہ بیمار ہوئیں اور انہوں نے وصیت کی کہ انہیں امہات المومنین اور رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے اہل بیت کے پہلو میں جنت البقیع میں دفن کیا جائے ۔ماہ رمضان کی 17تاریخ منگل کی رات ام المومنین عائشہ نے وفات پائی ۔ وفات کے وقت ان کی عمر 66 برس تھی۔ 18سال کی عمر میں بیوہ ہوئی تھیں ۔ حضرت ابوہریرہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔



12 Dec 2011

ُام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ


ُام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

نام ونسب
خدیجہ نام‘ ام ہند کنیت‘ طاہرہ لقب۔ سلسلہ نسب یہ ہے خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی‘ قصی پر پہنچ کر ان کا خاندان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے مل جاتا ہے۔ والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ تھا اور لوی بن غالب کے دوسرے بیٹے عامر کی اولاد تھی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد اپنے قبیلہ میں نہایت معزز شخص تھے مکہ آکر اقامت کی۔ عبدالدار ابن قصی کے‘ جوا ان کے ابن عم تھے‘ حلیف بنے اور یہیں فاطمہ بنت زائدہ سے شادی کی ہے جن کے بطن سے عام الفیل سے 15سال قبل حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئیں۔
سن شعور کو پہنچیں تو اپنے پاکیزہ اخلاق کی بناءپر طاہرہ کے لقب سے مشہور ہوئیں۔

تجارت
باپ اور شوہر کے مرجانے کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو سخت دقت واقع ہوئی ذریعہ معاش تجارت تھی جس کا کوئی نگران نہ تھا۔ تاہم اپنے اعزہ کو معاوضہ دیکر مال تجارت بھیجتی تھیں۔ ایک مرتبہ مال کی روانگی کا وقت آیا تو ابوطالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ تم کو خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جاکر ملنا چاہیے ان کا مال شام جائے گا۔ بہتر ہوگا کہ تم بھی ساتھ جاتے۔ میرے پاس روپیہ نہیں‘ ورنہ میں خود تمہارے لیے سرمایہ مہیا کردیتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہرت امین کے لقب سے تمام مکہ میں تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن معاملت‘ راست بازی‘ صدق ودیانت اور پاکیزہ اخلاقی کا عام چرچا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس گفتگو کی خبر ملی تو فوراً پیغام بھیجا کہ آپ میرا مال تجارت لیکر شام کو جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا اور مال تجارت لیکر میسرہ (غلام خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے ہمراہ بصرہ تشریف لے گئے‘ اس سال کا نفع سالہائے گزشتہ کے نفع سے دوگنا تھا۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی دولت و ثروت اور شریفانہ اخلاق نے تمام قریش کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا اور ہر شخص ان سے نکاح کا خواہاں تھا لیکن کارکنان قضاو قدر کی نظر انتخاب کسی اور پر پڑچکی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مال تجارت لیکر شام سے واپس آئے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شادی کا پیغام بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا اور شادی کی تاریخ مقرر ہوگئی۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 25سال کے تھے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر چالیس برس کی تھی۔ یہ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پندرہ سال قبل کا واقعہ ہے۔

اسلام
پندرہ برس کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر ہوئے اور فرائض نبوت کو ادا کرنا چاہا تو سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ پیغام سنایا‘ وہ سننے سے پہلے مومن تھیں کیونکہ ان سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدق دعویٰ کا کوئی شخص فیصلہ نہیں کرسکتا تھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء رئویائے صادقہ سے ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوکچھ خواب میں دیکھتے تھے سپیدہ صبح کی طرح نمودار ہوجاتا۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلوت گزین ہوگئے چنانچہ کھانے پینے کا سامان لیکر غار حرا تشریف لے جاتے اور وہاں تخث یعنی عبادت کرتے تھے جب سامان ہوختم ہوجاتا تو پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے پاس تشریف لاتے اور پھر واپس جاکر مراقبہ میں مصروف ہوتے‘ یہاں تک کہ ایک فرشتہ غیب نظر آیا کہ آپ سے کہہ رہا ہے پڑھ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں پڑھا لکھا نہیں‘ اس نے زور سے دبایا‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا اور کہا پڑھ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں پڑھا لکھا نہیں‘ پھر اس نے دوبارہ زور سے دبایا اور چھوڑ دیا اورکہا پڑھ‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا میں پڑھا لکھا نہیں‘ اسی طرح تیسری بار دبا کر کہا پڑھ اس خدا کا نام جس نے کائنات کو پیدا کیا‘ جس نے آدمی کو گوشت کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھ تیرا خدا کریم ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو جلال الٰہی سے لبریز تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے تمام واقعہ بیان کیا اور کہا ” مجھ کو ڈر ہے“ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا آپ متردد نہ ہوں خدا آپ کا ساتھ نہ چھوڑے گا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں‘ بے کسوں اور فقیروں کے معاون رہتے ہیں‘ مہمان نوازی اور مصائب میں حق کی حمایت کرتے ہیں‘ پھر وہ آپ کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو مذہباً نصرانی تھے عبرانی زبان جانتے تھے اور عبرانی زبان میں انجیل لکھا کرتے تھے اب وہ بوڑھے اور نابینا ہوگئے تھے‘ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے کہا کہ اپنے بھتیجے (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) کی باتیں سنو۔ بولے ابن الاخ تم نے کیا دیکھا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ کی کیفیت بیان کی تو کہا یہ وہی ناموس ہے جو موسیٰ ؑ پر اترا تھا‘ کاش مجھ میں اس وقت قوت ہوتی اور زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو شہر بدر کرے گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا ہاں۔ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا جب کسی پر نازل ہوتا ہے تو دنیا اس کی دشمن ہوجاتی ہے اور اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو تمہاری وزنی مدد کروں گا۔ اس کے بعد ورقہ کا بہت جلد انتقال ہوگیا اور وحی کچھ دنوں کیلئے رک گئی۔
اس وقت تک نماز پنجگانہ فرض نہ تھی‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نوافل پڑھا کرتے تھے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی آپ کے ساتھ نوافل میں شرکت کرتی تھیں۔ ابن سعد کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک عرصہ تک خفیہ طور پر نماز پڑھتے رہے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے صرف نبوت کی تصدیق ہی نہیں کی بلکہ آغاز اسلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی معین و مددگار ثابت ہوئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو چندسال تک کفار مکہ اذیت دیتے ہوئے ہچکچاتے تھے اس میں بڑی حد تک حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا اثر کام کررہا تھا اوپر گزر چکا ہے کہ آغازنبوت میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ مجھ کو ڈر ہے تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم متردد نہ ہوں خدا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑے گا۔ جب مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی اور تشفی دی۔

وفات
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نکاح کے بعد پچیس برس تک زندہ رہیں اور گیارہ رمضان ہجرت سے تین سال قبل انتقال فرمایا۔ اس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر 64 سال 6 ماہ کی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی قبر میں اترے اور اپنی سب سے بڑی غمگسار کو داعی اجل کے سپرد کیا۔ حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد ان ہی سے پیدا ہوئی۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وہ مقدس خاتون ہیں جنہوں نے نبوت سے پہلے بت پرستی چھوڑ دی تھی ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کو جو محبت تھی وہ اس سے ظاہر ہے کہ باوجود اس تمول اور اس دولت و ثروت کے جو ان کو حاصل تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت خود کرتی تھیں ۔ایک مرتبہ حضرت جبرائیل ؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہابرتن میں کچھ لارہی ہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو خدا کا اور میرا سلام پہنچا دیجئے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بے انتہا محبت تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی تک دوسری شادی نہیں کی ان کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا تو آپ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی سہیلیوں کے پاس گوشت بھجواتے تھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ گو میںنے خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نہیں دیکھا لیکن مجھ کو جس قدر ان پر رشک آتا تھا کسی اور پر نہیں آتا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ان کا ذکر کیا کرتے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭

7 Dec 2011

صحابہ رضی اللہ عنہ اور اہل بیت رضی اللہ عنہ کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم

حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ اگرچہ کمسن تھے لیکن استقامت و جانثاری میں کسی سے پیچھے نہ تھے قبول اسلام کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ کسی نے مشہور کردیا کہ مشرکین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کرلیا ہے یہ سننا تھا کہ جذبہ عشق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بے خود ہوکر اسی وقت ننگی تلوار کھینچ کر مجمع کو چیرتے ہوئے آستانہ اقدس پر حاضر ہوئے' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو پوچھا "زبیر! یہ کیا ہے؟ عرض کی مجھے معلوم ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔" ننھے زبیر کا یہ جذبہ دیکھ کر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور ان کیلئے دعا خیر فرمائی۔
اہل سیر فرماتے ہیں کہ یہ پہلی تلوار تھی جو راہ فدویت وجانثاری میں ایک بچہ کے ہاتھ سے برہنہ ہوئی۔

حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا خوف آخرت
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے پوچھا "آخر کیا وجہ ہے کہ میں نے آپ کو کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور فلاں فلاں صاحب کو احادیث بیان کرتے سنا ہے۔" یہ سن کر حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے فرمایا " میں اسلام لانے کے بعد کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا نہیں ہوا لیکن میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ جملہ فرماتے ہوئے سنا ہے" جس نے جان بوجھ کر کسی بات کو میری طرف منسوب کیا تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی دولت
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے تمول اور مالداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے تمام مال کا تخمینہ پانچ کروڑ دو لاکھ درہم (یا دینار) کیا گیا تھا لیکن اس قدر مال کے باوجود بائیس لاکھ کے مقروض تھے اس کی وجہ سے تھی کہ عموماً لوگ اپنا مال ان کے پاس جمع کرتے تھے لیکن یہ احتیاط کے خیال سے سب سے کہہ دیتے تھے کہ امانت نہیں بلکہ قرض کی حیثیت سے لیتا ہوں' اسی طرح بائیس لاکھ کے مقروض ہوگئے۔جب حضرت زبیر رضی اللہ عنہ جنگ جمل کیلئے تیار ہوئے تو انہوں نے اپنے صاحبزادہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا "جان پدر! مجھے سب سے زیادہ خیال اپنے قرضہ کا ہے' اس لیے میرا مال ومتاع بیچ کر سب سے پہلے قرضہ ادا کرنا اور جو باقی بچے اس میں سے ایک تہائی تمہارے بچوں کووصیت کرتا ہوں ہاں! اگر کفایت نہ کرے تو میرے مولیٰ کی طرف رجوع کرنا۔" حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا "آپ کا مولیٰ کون ہے؟" فرمایا "میرامولیٰ خدا ہے جس نے مصیبت کے وقت میری دستگیری کی ہے۔"
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حسب وصیت مختلف آدمیوں کے ہاتھ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی جاگیر بیچ کر قرضہ ادا کرنے کا انتظام کیا اور چار برس تک زمانہ حج میں اعلان کرتے رہے کہ زبیر رضی اللہ عنہ پر جس کا قرض ہو آکر مجھ سے وصول کرلے' غرض اس طرح سے قرض ادا کرنے کے بعد اتنی رقم باقی رہی کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی چار بیویوں میں سے ہر ایک کو بارہ بارہ لاکھ حصہ ملا' موصی لہ اور دوسرے وارث اس کے علاوہ تھے۔

حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی فکر آخرت
حضرت عبداللہ بن زیبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ان آیات کا نزول ہوا۔ ترجمہ: "آپ کو بھی مرنا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے' پھر قیامت کے دن تم مقدمات اپنے رب کے سامنے پیش کروگے۔" (الزمر: 31,30)
توحضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا "یارسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم خاص خاص گناہوں کے ساتھ ہم پر وہ جھگڑے بھی بارہا پیش کیے جائیں گے جو دنیا میں ہمارے آپس میں تھے؟" حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ہاں! یہ مقدمات بار بار پیش کیے جاتے رہیں گے' یہاں تک کہ ہر حق والے کو اس کا حق مل جائے گا۔" یہ سن کر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا "اللہ کی قسم! پھر تو معاملہ بہت سخت ہے۔"

مجلس کا کفارہ
ایک مرتبہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا "یارسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں تو ہم زمانہ جاہلیت کی باتیں شروع کردیتے ہیں۔" حضور صلی اللہ علیہ وسلم اقدس نے ارشاد فرمایا: " جب تم ایسی مجلسوں میں بیٹھو جن میں تمہیں اپنے بارے میں ڈر ہو کہ تم سے غلط باتیں ہوگئی ہوں گی تو اٹھتے وقت یہ کلمات پڑھ لیا کرو: سُبحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمدِکَ نَشھَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنتَ نَستَغفِرُکَ وَنَتُوبُ اِلَیکَ۔ اس مجلس میں جو کچھ ہوا ہوگا یہ کلمات اس کیلئے کفارہ بن جائیں گے۔"

اے حراء! ٹھہر جا
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جبل حراءپر تھے کہ اچانک اس پر لرزہ طاری ہوا اور وہ حرکت کرنے لگا' حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: "اے حراءٹھہر جا! تجھ پر ایک نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )' صدیق رضی اللہ عنہ ہے اور (باقی) شہید ہیں' اس وقت پہاڑ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ' حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ' حضرت عمر رضی اللہ عنہ ' حضرت علی رضی اللہ عنہ ' حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ' حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔امام نووی "شرح مسلم" میں فرماتے ہیں "یہ حدیث حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ہے اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی خبر دی کہ یہ حضرات شہادت کا رتبہ حاصل کریں گے اور اس وقت پہاڑ پر موجود حضرات میں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علاوہ سب کی وفات شہادت کے ساتھ ہوئی۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نزدیک مقام زبیر رضی اللہ عنہ
ایک مرتبہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اس قدر بیمار ہوگئے کہ حج کیلئے بھی نہ جاسکے اور اپنا وصی بھی مقرر فرما دیا' اس بیماری کے دوران ایک قریشی آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا " آپ اپنا نائب مقرر فرمادیجئے" حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا " میں ایسا کرچکا ہوں" اس شخص نے پوچھا "آپ نے کس کو اپنا نائب مقرر کیا ہے؟" حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس بات کا جواب نہ دیا اور خاموشی اختیار فرمالی۔ اس کے بعد دوسرا شخص آیا اور اس نے بھی وہی گفتگو کی جو پہلے نے کی تھی' حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سے پہلے جیسی گفتگو فرمانے کے بعد کہا: " یہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ہیں" پھر فرمایا "خدا کی قسم! میرے علم کے مطابق یہ لوگوں میں سب سے بہتر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب ہیں۔
--
**Asif Rao**

**Sargodha**

29 Nov 2011

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم کے مطابق اچھا سلوک رہتا


عراق‘ مصر اور شام کے دفتر مال گزاری کا حساب کتاب وہاں کی زبانوں میں رکھا جاتاتھا اس لیے حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں وہاں کے حساب کتاب کرنے والے مجوسی‘ عیسائی یا قبطی تھے۔ ان کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم کے مطابق اچھا سلوک رہتا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے بستر مرگ پر بھی ذمیوں کا خیال رہا۔انہوں نے فرمایا میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو ذمیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تلقین کرتا ہوں‘ ان سے جو عہد کیا جائے اس کی پابندی کی جائے‘ ان کے دشمنوں کے خلاف ان کا دفاع کیا جائے اور ان پر ان کی برداشت سے زیادہ بار نہ ڈالا جائے۔وہ عمال (گورنر وغیرہ) کی خطائوں کی سخت گرفت کرتے‘ ایک بار عوام سے مخاطب ہوکر فرمایا: اللہ کی قسم میں اپنے عمال (گورنر) کو تمہارے پاس اس لیے نہیں بھیجتا ہوں کہ وہ تمہارے منہ پر تم کو چانٹے ماریں‘ تمہارا مال چھین لیں‘ وہ اس لیے بھیجے جاتے ہیں کہ تم کو تمہارا دین اور تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سکھائیں‘ اگر کوئی ذمہ دار کسی سے دین اور سنت سے ہٹ کر سلوک کرے تو میں اس سے مظلوم کا بدلہ لیکر رہوں گا یہ سن کر عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہہ اٹھے کہ اگر کوئی مسلمان گورنر اپنی رعایا کی تادیب کرے تو کیا اس سے بھی قصاص لیا جائےگا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا: ہاں! میں اس سے ضرور قصاص لونگا‘ میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اپنے سے قصاص دلواتے دیکھا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہوجاتا کہ کوئی حکومتی ذمہ دار اپنے نمود و ترفع کا اظہار کرتا ہے‘ بیمار کی عیادت نہیں کرتا ہے‘ کمزور اس کے دربار میں پہنچ نہیں پاتے ہیں تو اس کو معزول کردیتے‘ انہوں نے عمال (گورنروغیرہ)کو ہدایت دے رکھی تھی کہ وہ ترکی گھوڑے پر نہ سوار ہوں‘ باریک کپڑے نہ پہنیں‘ چھنا ہوا آٹا نہ کھائیں‘ دروازہ پر دربان نہ رکھیں‘ اہل حاجت کیلئے ہمیشہ دروازہ کھلا رکھیں۔ اگر کوئی ان ہدایتوں کی خلاف ورزی کرتا تو اس کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرتے۔

28 Nov 2011

خیبر کے یہودیوں نے ایسی باغیانہ روش اختیار کی کہ



خیبر کے یہودیوں نے ایسی باغیانہ روش اختیار کی کہ نہ صرف مسلمانوں کے معاملات میں خیانت کی اور ان میں تباہی پھیلانی چاہی بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو بالاخانہ سے نیچے پھینک دیا جس سے ان کے ہاتھ ٹوٹ گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو خیبر سے جلاوطن کیا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ان سے یہ معاہدہ ہوا تھا کہ وہ نصف زمین اور نصف پیداوار کے حصہ دار ہوں گے اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو جلاوطن کرتے وقت نصف زمین اور نصف پیداوار کے معاوضے میں سونے چاندی اور اونٹوں کے پالان دئیے۔
فدک کے یہودیوں نے بھی سیاسی بغاوت کی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بھی جلاوطن پر مصالحت کی تھی اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو جلاوطن کرتے وقت نخلستان اور اراضی میں ان کا جتنا حصہ ہوتا تھا اس کی عادلانہ قیمت تجویز کرنے کیلئے چند واقف کاروں کو بھیجا اور انہوں نے جو تجویز کی اس کے مطابق قیمت دیدی گئی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنی مملکت میں کسی باغیانہ سازش کی خبر مل جاتی تو اس کو فرو کرنے میں بھی پوری سختی سے کام لیتے، یہ سازش اگر غیرمسلموں کی ہوتی تو ان کو سزا دینے میں تامل تو نہیں کرتے لیکن اس میں بھی ان کی رحم لیئت اور رواداری بروئے کار آجاتی۔ شام فتح ہوا تو اس کی آخری سرحد پر ایک شہر عربوس تھا، یہاں کے لوگوں سے معاہدہ ہوگیا مگر وہ چپکے چپکے ایشیائے کوچک کے رومیوں سے سازباز کرکے مسلمانوں کے راز ان کو بتاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو وہاں کے حاکم عمیر رضی اللہ عنہ بن سعد کو لکھ بھیجا کہ انکو ایک برس کی مہلت دو کہ وہ اپنی سازش سے باز آئیں اور اگر باز نہ آئیں تو ان کی جائیداد زمین، مویشی اور اسباب کو شمار کرکے ایک ایک چیز کی دو چند قیمت دے دو اور ان سے کہو کہ کہیں اور چلے جائیں، اس حکم کی تعمیل کی گئی۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں


حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں بھی رومیوں سے برابر ٹکر رہی اور جب حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے جانباز سپہ سالاروں نے دمشق‘ فحل‘ اردن اور حمص پر قبضہ کرلیا تو ہرقل بہت سراسیمہ ہوا‘ اس نے اپنے فوجی امراءکو بلا کر پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ عرب تعداد و اسلحہ اور سروسامان میں ہم سے بہت کم ہیں پھر بھی وہ کامیاب ہوتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کا جواب ایک تجربہ کار شخص نے دیا کہ عرب کے اخلاق ہمارے اخلاق سے اچھے ہیں‘ وہ رات کو عبادت کرتے ہیں دن کو روزہ رکھتے ہیں‘ کسی پر ظلم نہیں کرتے‘ آپس میں برابری کے ساتھ رہتے ہیں ان کے مقابلہ میں ہمارا حال یہ ہے کہ ہم شراب پیتے ہیں‘ بدکاریاں کرتے ہیں‘ وعدہ کی پابندی نہیں کرتے‘ دوسروں پر ظلم کرتے ہیں‘ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے ہر کام میں جوش اور استقلال ہوتا ہے اور ہمارے کام ان سے خالی ہوتے ہیں۔
جنگ یرموک کے بعد کا واقعہ ہے کہ ایک قاصد جارج نامی صلح کا پیام لے کر حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا مسلمان اس وقت مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے ان کی محویت اور خضوع کو دیکھ کر وہ بے حد حیرت زدہ ہوا‘ نماز ختم ہوچکی تو حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میںپیش کیا گیا‘ اس نے جو چند سوالات کیے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کیا خیال ہے؟ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے قرآن کی یہ آیتیں پڑھیں جن کامطلب یہ تھا: اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اللہ کے بارے میں حق بات کہو‘ مسیح عیسیٰ بن مریم تو صرف اللہ کے رسول اور ایک کلمہ ہیں جس کو اللہ نے مریم کے اندر ڈالا تھا‘ مسیح کو اس سے ہرگز انکار نہیں کہ وہ اللہ کے ایک بندے ہیں‘ ان کو سن کر جارج بے اختیار ہوکر بول اٹھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یہی اوصاف ہیں‘ بے شک تمہارا پیغمبر سچا ہے‘ یہ کہہ کر کلمہ توحید پڑھا اور مسلمان ہوگیا‘ وہ اپنی قوم کے پاس جانا نہیں چاہتا تھا مگر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے خلاف تھا کہ کسی کے سفیر کو روک لیا جائے‘ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کو یہ کہہ کر واپس کیا کہ ابھی تم جائو ‘ وہاں جاکر تمہارا جی چاہے تو چلے آنا۔ یہ رواداری کی کتنی بلند مثال تھی۔

حضرت علی کا یمن تبلیغ کیلئے انتخاب

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کا یمن تبلیغ کیلئے انتخاب کیا‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پہلے تو اس کام کو دشوار سمجھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینہ پر دست مبارک رکھ کر دعا فرمائی کہ” اے اللہ! اس کی زبان کو راست گو بنا اور اس کے دل کو ہدایت کے نور سے منور کردے۔“ اس کے بعد ان کے سر پر عمامہ باندھا اور سیاہ علم دے کر یمن کی طرف روانہ کیا‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے حسن تدبیر اور حسن سلوک سے وہاں کا رنگ کچھ ایسا بدل دیا کہ ہمدان کا پورا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔ ( خلفائے راشدین)
خارجی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف برابر سازش کرتے رہے‘ وہ مجوسیوں‘ مرتدوں‘ نومسلموں اور ذمیوں کو بغاوت پر آمادہ کرتے رہتے مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان بغاوتوں کو بڑے صبرو تحمل سے فروکیا اور جب وہ زیر ہوگئے تو ان سے لطف و ترحم کا برتائو کیا‘ ایرانی باغی ان کے فیاضانہ سلوک سے یہ کہہ اٹھے تھے کہ امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے طریق جہاں بانی نے تو نوشیروانی طرز حکومت کی یاد بھلادی۔حضرت علی رضی اللہ عنہ ذمیوں کے ساتھ ہمیشہ شفقت و محبت کا برتائو رکھا‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے جتنے معاہدے کیے تھے ان کو برقرار رکھا‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حجاز کے عیسائیوں کو نجران یمن سے جلاوطن کرکے نجران عراق میں آباد کرادیا تھا کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف گھوڑے اور اسلحہ جمع کرنا شروع کردئیے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں وہ واپس آنا چاہتے تھے اور جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس کیلئے درخواست کی تو انہوں نے منظور کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے بہت موزوں ہوتے تھے پھر بھی ان کیلئے یہ تحریر لکھ دی کہ تم لوگ میرے پاس اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تحریر لیکر آئے ہو جس میں تمہارے لیے تمہاری جان‘ تمہارے مال کے سلسلے میں شرط لکھی ہے تمہارے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ میں نے پورا کردیا۔ لہٰذا اب جو مسلمان ان کے یہاں جائے اسے ان وعدوں کو پورا کرنا چاہیے جو ان کے ساتھ کیے گئے ہیں نہ انکو دبایا جائے نہ ان کیساتھ ظلم کیا جائے نہ انکے حقوق میں سے کسی قسم کی کمی کی جائے۔

21 Nov 2011

درودشریف اورحاجت کا پورا ہونا


درودشریف اورحاجت کا پورا ہونا
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ایک دن میں مجھ پر سو (100) مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی سو (100) حاجتیں پوری فرماتا ہے ان میں سے ستر (70) حاجتوں کا تعلق اس کی آخرت سے ہے اور تیس (30) کا اس کی دنیا سے۔
:: کنزالعمال، 1 : 505، رقم : 2232، باب الصلاة عليه صلي الله عليه وآله وسلم

حضرت جعفر بن محمد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت پر سو (100) مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی سو (100) حاجتیں پوری فرما دیتا ہے۔
:: تهذيب الکمال، 5 : 84

حضرت انس رضی اللہ عنہ جو حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے خدمت گار تھے بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے روز تمام دنیا میں سے تم میںسب سے زیادہ میرے قریب وہ شخص ہوگا جو دنیا میں تم میں سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجنے والا ہوگا پس جو شخص جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات مجھ پر سو مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی سو حاجتیں پوری فرماتا ہے ان میں سے ستر (70) آخرت کی حاجتوں میں سے اور تیس (30) دنیا کی حاجتوں میں سے ہیں پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ مقرر فرما دیتا ہے جو اس درود کو میری قبر میں اس طرح مجھ پر پیش کرتا ہے جس طرح تمہیں تحائف پیش کیے جاتے ہیں اور وہ مجھے اس آدمی کا نام اور اس کا نسب بمعہ قبیلہ بتاتا ہے، پھر میں اس کے نام و نسب کو اپنے پاس سفید کاغذ میں محفوظ کرلیتا ہوں۔
:: بيهقي، شعب الايمان، 3 : 111، رقم : 3035

''حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص جمعہ کے دن اور رات مجھ پر سو (100) مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی سو (100) حاجتیں پوری فرماتا ہے۔ ان میں سے ستر (70) آخرت کی حاجتوں میں سے اور تیس (30) دنیا کی حاجتوں میں سے ہیں اور پھر ایک فرشتہ کو اس کام کے لئے مقرر فرما دیتا ہے کہ وہ اس درود کو میری قبر میں پیش کرے جس طرح تمہیں تحائف پیش کیے جاتے ہیں بے شک موت کے بعد میرا علم ویسا ہی ہے جیسے زندگی میں میرا علم تھا۔
:: کنزالعمال، 1 : 507، رقم : 2242

***Asif Rao***
**Sargodha**

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت علی رضي اللہ تعالی عنہ کے لیے دعا

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کا یمن تبلیغ کیلئے انتخاب کیا' حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پہلے تو اس کام کو دشوار سمجھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینہ پر دست مبارک رکھ کر دعا فرمائی کہ" اے اللہ! اس کی زبان کو راست گو بنا اور اس کے دل کو ہدایت کے نور سے منور کردے۔" اس کے بعد ان کے سر پر عمامہ باندھا اور سیاہ علم دے کر یمن کی طرف روانہ کیا' حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے حسن تدبیر اور حسن سلوک سے وہاں کا رنگ کچھ ایسا بدل دیا کہ ہمدان کا پورا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔ ( خلفائے راشدین)
خارجی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف برابر سازش کرتے رہے' وہ مجوسیوں' مرتدوں' نومسلموں اور ذمیوں کو بغاوت پر آمادہ کرتے رہتے مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان بغاوتوں کو بڑے صبرو تحمل سے فروکیا اور جب وہ زیر ہوگئے تو ان سے لطف و ترحم کا برتائو کیا' ایرانی باغی ان کے فیاضانہ سلوک سے یہ کہہ اٹھے تھے کہ امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے طریق جہاں بانی نے تو نوشیروانی طرز حکومت کی یاد بھلادی۔حضرت علی رضی اللہ عنہ ذمیوں کے ساتھ ہمیشہ شفقت و محبت کا برتائو رکھا' حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے جتنے معاہدے کیے تھے ان کو برقرار رکھا' حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حجاز کے عیسائیوں کو نجران یمن سے جلاوطن کرکے نجران عراق میں آباد کرادیا تھا کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف گھوڑے اور اسلحہ جمع کرنا شروع کردئیے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں وہ واپس آنا چاہتے تھے اور جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس کیلئے درخواست کی تو انہوں نے منظور کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے بہت موزوں ہوتے تھے پھر بھی ان کیلئے یہ تحریر لکھ دی کہ تم لوگ میرے پاس اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تحریر لیکر آئے ہو جس میں تمہارے لیے تمہاری جان' تمہارے مال کے سلسلے میں شرط لکھی ہے تمہارے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ میں نے پورا کردیا۔ لہٰذا اب جو مسلمان ان کے یہاں جائے اسے ان وعدوں کو پورا کرنا چاہیے جو ان کے ساتھ کیے گئے ہیں نہ انکو دبایا جائے نہ ان کیساتھ ظلم کیا جائے نہ انکے حقوق میں سے کسی قسم کی کمی کی جائے۔ 

--
***Asif Rao***

**Sargodha**

11 Nov 2011

اونٹ بولا



اونٹ بولا

ایک شخص دربار رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا اور دوسرے شخص کے خلاف دعوٰی کر دیا کہ اس نے میرا اونٹ چوری کر لیا ہے اور دو گواہ بھی لے آیا۔ ان دونوں نے گواہی بھی دے دی۔
تاجدار انبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا ارادہ فرمایا تو مدعی نے عرض کی۔ "یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ! آپ اونٹ کو حاضر کرنے کا حکم دیجئے۔ پھر اونٹ سے پوچھ لیجئے کہ اصل حقیقت کیا ہے ؟ میں اللہ کی رحمت سے اُمید رکھتا ہوں کہ وہ اونٹ کو بولنے کی قول عطا فرمائے گا۔"

چنانچہ حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اونٹ کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ اونٹ آیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ "اے اونٹ ! میں کون ہوں ؟ اور یہ ماجرا کیا ہے ؟" اونٹ فصیح زبان سے بولا کہ، آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اللہ عزوجل کے رسول ہیں۔ یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ! اس مالک کا ہاتھ نہ کاٹیں کیونکہ مُدعی گواہ منافق ہیں۔ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی عداوت اور دشمنی کی بناء پر میرے مالک کا ہاتھ کاٹنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اونٹ کے مالک سے پوچھا۔ "وہ کون سا عمل ہے جس کی برکت سے اللہ تعالٰی نے تجھے اس مُصیبت سے بچا لیا ہے ؟" عرض کیا۔ "سرکار ! میرے پاس کوئی بڑا عمل نہیں ہے، لیکن ایک عمل ہے وہ یہ کہ اٹھتا بیٹھتا آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی پر دورد شریف پڑھتا رہتا ہوں۔" حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ "اس عمل پر قائم رہ۔ اللہ تعالٰی تجھے دوزخ سے یونہی بَری کردے گا جیسے تجھے ہاتھ کٹ جانے سے بَری کیا ہے۔"
(سعادۃ الدارین۔ ص 137)

"نزہتہ المجالس" میں اتنا زیادہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا۔

"اے پیارے صحابی ! جب تُو پُل صراط پر گزرنے لگے گا تو تیرا چہرہ یوں چمکے گا جیسے چودھویں رات کا چاند چمکتا ہے۔"

(نزہتہ المجالس۔ ص 106۔ جلد 2


***Asif Rao***
**Sargodha**

29 Oct 2011

آپ کا ذِکر ذِکر خُدا ہے


آپ کا  ذِکر ذِکر خُدا ہے

حدیث قدسی ہے، اللہ تعالي فرماتا ہے۔
میں نے ایمان کا مکمل ہونا اس بات پر موقوف کر دیا ہے کہ ا ے محبوب میرے ذکر کے ساتھ تمھارا ذکر بھی ہو اور میں نے تمہارے ذکر کو اپنا ذکر ٹھہرا دیا ہے، پس جس نے تمہارا ذکر کیا اُس نے میرا ذکر کیا۔ ۔۔شفا شریف۔۔
..............
 حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا۔
میرے پاس جبریل آئے اور کہا بے شک آپکا رب فرماتا ہے کہ ائے حبیب تمہیں معلوم ہے کہ مین نے تمھارا ذکر کیسا بلند کیا ہےمیں نے کہا اللہ خُوب جانتا ہے فرمایا کہ جب میرا ذکر ہوگا تو میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر بھی ہوگا۔۔۔درمنشور۔
.......................
حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ،
آدم علیہ السلام آپنے بیٹےشیت علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوے اور فرمایا ائے میرے بیٹے تم میرے بعد میرے خلیفہ ہو پس خلافت کو تقوی کے تاج اور محکم یقین کے ساھ پکڑے رہو اور جب تم اللہ کا ذکر کروتو اس کے متصل نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم   کا ذکر کرو کیونکہ میں نے اس کا نام عرش کے ستونوں پر لکھا ہوا دیکھاہے  جب کہ میں روح و مٹی کے درمیان تھا پھر میں نے تمام آسمانوں پر نظر کی تو مجھے کوئی جگہ ایسی نظر نہیں آئی جہا ں نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم
 لکھا  ہوا نہ ہواورمیرے رب نے مجھے جنت میں رکھا تو میں نے جنت کے کے ہر محل اور ہر بلا خانے اور برآمدے پر اور تمام حوروں کے سینوں پر اور جنت کے تمام درختوں کے پتوں پر اور شجر طوبي اور سدرۃ المنتہی کے پتوں پر اور پردوں کے کناروں پر اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم  لکھا ہو ادیکھا ہے لہذا تو کثرت سے انکا ذکر کیاکر، کیونکہ فرشتے ہر وقت اس کے ذکر میں مشغول رہتے ہیں۔۔۔زرقانی علی المواہب۔۔

 محمد کی محبت دین حق کی شرط اوّل ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے

***Asif Rao***

**Sargodha**

28 Oct 2011

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت








حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی شانِ علم اور معرفت

الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ

میں صدقے یا رسول اللہ
میرے ماں باپ قربان
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ علم اور معرفت کا بیان

الحديث رقم 9 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الاعتصام بالکتاب والسنة، باب : ما يکره من کثرة السؤال وتکلف ما لايعنيه، 6 / 2660، الرقم : 6864، وفي کتاب : مواقيت الصلاة، باب : وقت الظهر عند الزوال، 1 / 200، الرقم : 2001، 2278، وفي کتاب : العلم، باب : حسن برک علي رکبتيه عند الإمام أو المحدث، 1 / 47، الرقم : 93، وفي الأدب المفرد، 1 : 404، الرقم : 1184، ومسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : توقيره صلي الله عليه وآله وسلم وترک إکثار سؤال عما لا ضرورة إليه، 4 / 1832، الرقم : 2359، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 162، الرقم : 12681، وأبو يعلي في المسند، 6 / 286، الرقم : 3201، وابن حبان في الصحيح، 1 / 309، الرقم : 106، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 72، الرقم : 9155.
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آفتاب ڈھلا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھائی پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور پھر فرمایا : اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات و حادثات ہیں، پھر فرمایا : جو شخص کسی بھی نوعیت کی کوئی بات پوچھنا چاہتا ہے تو وہ پوچھے، خدا کی قسم! میں جب تک یہاں کھڑا ہوں تم جو بھی پوچھو گے اس کا جواب دوں گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے زاروقطار رونا شروع کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلال کے سبب بار بار یہ اعلان فرما رہے تھے کہ کوئی سوال کرو، مجھ سے (جو چاہو) پوچھ لو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ! میرا ٹھکانہ کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دوزخ میں۔ پھر حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تیرا باپ حذافہ ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار فرماتے رہے مجھ سے سوال کرو مجھ سے سوال کرو، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض گذار ہوئے۔ ہم اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں (اور ہمیں کچھ نہیں پوچھنا)۔ راوی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ گذارش کی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! ابھی ابھی اس دیوار کے سامنے مجھ پر جنت اور دوزخ پیش کی گئیں جبکہ میں نماز پڑھ رہا تھا تو آج کی طرح میں نے خیر اور شر کو کبھی نہیں دیکھا
۔
نْ عُمَرَ رضي الله عنه يَقُوْلُ : قَامَ فِيْنَا النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم مَقَامًا، فَأَخْبَرَنَا عَنْ بَدْءِ الْخَلْقِ حَتَّي دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مَنَازِلَهُمْ وَأَهْلُ النَّارِ مَنَازِلَهُمْ، حَفِظَ ذَلِکَ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

الحديث رقم 10 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : بدء الخلق، باب : ما جاء في قول اﷲ تعالي : وهو الذي يبدأ الخلق ثم يعيده وهوأهون عليه، 3 / 1166، الرقم : 3020.

''حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز ہمارے درمیان قیام فرما ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مخلوقات کی ابتدا سے لے کر جنتیوں کے جنت میں داخل ہو جانے اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخل ہو جانے تک ہمیں سب کچھ بتا دیا۔ جس نے اسے یاد رکھا، یاد رکھا اور جو اسے بھول گیا سو بھول گیا۔
''

559 / 11. عَنْ حُذَيفَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَامَ فِيْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مَقَامًا مَا تَرَکَ شَيْئًا يَکُوْنُ فِي مَقَامِهِ ذَلِکَ إِلَي قِيَامِ السَّاعَةِ، إِلَّا حَدَّثَ بِهِ حَفِظَهُ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

الحديث رقم 11 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : القدر، باب : وکان أمر اﷲ قدرا مقدورا، 6 / 2435، الرقم : 6230، ومسلم في الصحيح، کتاب : الفتن وأشراط الساعة، باب : اخبار النبي صلي الله عليه وآله وسلم فيما يکون إلي قيام الساعة، 4 / 2217، الرقم : 2891، والترمذي مثله عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه في السنن، کتاب : الفتن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء أخبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم أصحابه بما هو کائن إلي يوم القيامة، 4 / 483، الرقم : 2191، وأبوداود في السنن، کتاب : الفتن والملاحم، باب : ذکر الفتن ودلائلها، 4 / 94، الرقم : 4240، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 385، الرقم : 23322، والبزار في المسند، 7 / 231، الرقم : 8499، وقال : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، والطبراني مثله عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه في مسند الشاميين، 2 / 247، الرقم : 1278، والخطيب التبريزي في مشکوٰة المصابيح، 2 / 278، الرقم : 5379.

''حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے درمیان ایک مقام پر کھڑے ہو کر خطاب فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس دن کھڑے ہونے سے لے کر قیامت تک کی کوئی ایسی چیز نہ چھوڑی، جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان نہ فرما دیا ہو۔ جس نے اسے یاد رکھا یاد رکھا اور جو اسے بھول گیا سو بھول گیا۔
'
عَنْ عَمْرِو بْنِ أَخْطَبَ رضي الله عنه قَالَ : صَلَّي بِنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم الْفَجْرَ. وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتَّي حَضَرَتِ الظُّهْرُ، فَنَزَلَ فَصَلَّي ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ. فَخَطَبَنَا حَتَّي حَضَرَتِ الْعَصْرُ، ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّي ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ. فَخَطَبَنَا حَتَّي غَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَأَخْبَرَنَا بِمَا کَانَ وَبِمَا هُوَ کَاءِنٌ قَالَ : فَأَعْلَمُنَا أَحْفَظُنَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.

الحديث رقم 12 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الفتن وأشراط الساعة، باب : إخبار النبي صلي الله عليه وآله وسلم فيما يکون إلي قيام الساعة، 4 / 2217، الرقم : 2892، والترمذي في السنن، کتاب : الفتن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء ما أخبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم أصحابه بما هو کائن إلي يوم القيامة، 4 / 483، الرقم : 2191، وابن حبان في الصحيح، 15 / 9، الرقم : 6638، والحاکم في المستدرک، 4 / 533، الرقم : 8498، وأبويعلي في المسند، 12 / 237، الرقم : 2844، والطبراني في المعجم الکبير، 17 / 28، الرقم : 46، والشيباني في الأحاد والمثاني، 4 / 199، الرقم : 2183.

''حضرت عمرو بن اخطب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز فجر میں ہماری امامت فرمائی اور منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ہمیں خطاب فرمایا یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہوگیا' پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیچے تشریف لے آئے نماز پڑھائی بعد ازاں پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہمیں خطاب فرمایا حتی کہ عصر کا وقت ہو گیا پھر منبر سے نیچے تشریف لائے اور نماز پڑھائی پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ہر اس بات کی خبر دے دی جو جو آج تک وقوع پذیر ہو چکی تھی اور جو قیامت تک ہونے والی تھی۔ حضرت عمرو بن اخطب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم میں زیادہ جاننے والا وہی ہے جو ہم میں سب سے زیادہ حافظہ والا تھا۔
عَنْ حُذَيْفَةَ رضي الله عنه أَنَّهُ قَالَ : أَخْبَرَنِي رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : بِمَا هُوَکَاءِنٌ إِلَي أَنْ تَقُوْمَ السَّاعَةُ. فَمَا مِنْهُ شَيئٌ إِلاَّ قَدْ سَأَلْتُهُ إِلاَّ أَنِّي لَمْ أَسْأَلْهُ مَا يُخْرِجُ أَهْلَ الْمَدِيْنَةِ مِنْ الْمَدِيْنَةِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

الحديث رقم 13 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الفتن وأشراط الساعة، باب إخبار النبي صلي الله عليه وآله وسلم فيما يکون إلي قيام الساعة، 4 / 2217، الرقم : 2891، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 386، الرقم : 23329، والحاکم في المستدرک، 4 / 472، الرقم : 8311، والبزار في المسند، 7 / 222، الرقم : 2795، والطيالسي في المسند، 1 / 58، الرقم : 433، وابن منده في کتاب الإيمان، 2 / 912، الرقم : 996، وإسناده صحيح، والمقرئ في السنن الواردة في الفتن، 4 / 889، الرقم : 458.

''حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے قیامت تک رونما ہونے والی ہر ایک بات بتا دی اور کوئی ایسی بات نہ رہی جسے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا نہ ہو البتہ میں نے یہ نہ پوچھا کہ اہلِ مدینہ کو کون سی چیز مدینہ سے نکالے گی؟'
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَتَانِي رَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، قُلْتُ : لَبَّيْکَ وَسَعْدَيْکَ. قَالَ : فِيْمَ يَخْتَصِمُ الْمَ.لَأُ الْأَعْلَي؟ قُلْتُ : رَبِّي لَا أَدْرِي، فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ کَتِفَيَّ، حَتَّي وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ، فَعَلِمْتُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْيَعْلَي. وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

وفي رواية عنه : قَالَ : فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَتَلاَ : (وَکَذَلِکَ نُرِيْ إِبْرَاهِيْمَ مَلَکُوْتَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْقِنِيْنَ) (الأنعام، 6 : 75). رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.

وفي رواية : عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه قَالَ : فَتَجَلَّي لِي کُلُّ شَيءٍ وَعَرَفْتُ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِِيُّ.

وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

وفي رواية : عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه قَالَ : فَعَلِمْتُ فِي مَقَامِي ذَلِکَ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالرُّوْيَانِيُّ.

وفي رواية : فَعَلِمْتُ مِنْ کُلِّ شَيءٍ وَبَصَرْتُهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

وفي رواية : عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضي الله عنه قَالَ : فَمَا سَأَلَنِي عَنْ شَيءٍ إِلَّا عَلِمْتُهُ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.

إِسْنَادُهُ حَسَنٌ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

الحديث رقم 14 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ومن سورة ص، 5 / 366 - 368، الرقم : 3233 - 3235، والدارمي في السنن، کتاب الرؤيا، باب : في رؤية الرب تعالي في النوم، 2 / 170، الرقم : 2149، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 368، الرقم : 3484، 4 / 66، 5 / 243، الرقم : 22162، 23258، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 290، الرقم : 8117، 20 / 109، 141، الرقم : 216، 690، والروياني في المسند، 1 / 429، الرقم : 656، 2 / 299، الرقم : 1241، وأبويعلي في المسند، 4 / 475، الرقم : 2608، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 313، الرقم : 31706، والشيباني في الآحاد والمثاني، 5 / 49، الرقم : 2585، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 228، الرقم : 682، وابن أبي عاصم في السنة 1 / 203، الرقم : 465، إِسْنَادُهُ حَسَنٌ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ. وعبد اﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 489، الرقم : 1121، والحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 3 / 120، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 159، الرقم : 591، وابن عبد البر في التمهيد، 24 / 323، وابن النجاد في الرّد علي من يقول القرآن مخلوق، 1 / 5856، الرقم : 76 - 78، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 176 - 178.

''حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (معراج کی رات) میرا رب میرے پاس (اپنی شان کے لائق) نہایت حسین صورت میں آیا اور فرمایا : یا محمد! میں نے عرض کیا : میرے پروردگار! میں حاضر ہوں بار بار حاضر ہوں۔ فرمایا : عالمِ بالا کے فرشتے کس بات میں جھگڑتے ہیں؟ میں نے عرض کیا : اے میرے پروردگار! میں نہیں جانتا۔ پس اﷲ تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا اور میں نے اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس کی۔ اور میں وہ سب کچھ جان گیا جو کچھ مشرق و مغرب کے درمیان ہے۔''

حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ہی مروی ایک اور روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور میں جان گیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی : ''اور اسی طرح ہم ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہتیں (یعنی عجائباتِ خلق) دکھا رہے ہیں اور (یہ) اس لئے کہ وہ عین الیقین والوں میں سے ہو جائے۔'' (الانعام، 6 : 75)۔

''اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور مجھ پر ہر شے کی حقیقت ظاہر کر دی گئی جس سے میں نے (سب کچھ) جان لیا۔''

''حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس مجھ سے دنیا و آخرت کے بارے میں کیئے جانے والے سوالات کے جوابات میں نے اسی مقام پر جان لئے۔''

''اور ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور میں نے دنیا و آخرت کی ہر ایک شے کی حقیقت جان بھی لی اور دیکھ بھی لی۔''

''اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس مجھ سے جب بھی کسی چیز کے متعلق سوال کیا گیا تو میں نے اسے جان لیا۔ پس اس کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھ سے کسی شے کے متعلق سوال کیا گیا ہو اور میں اسے جانتا نہ ہوں۔'
عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه في رواية طويلة أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم شَاوَرَ، حِيْنَ بَلَغَنَا إِقَبَالُ أَبِي سُفْيَانَ، وَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ رضي الله عنه فَقَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِيْضَهَا الْبَحْرَ لَأَخَضْنَاهَا. وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَکْبَادَهَا إلَي بَرْکِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا. قَالَ : فَنَدَبَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم النَّاسَ، فَانْطَلَقُوْا حَتَّي نَزَلُوْا بَدْرًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ قَالَ : وَيَضَعُ يَدَهُ عَلَي الْأَرْضِ، هَاهُنَا وَهَاهُنَا. قَالَ : فَمَا مَاتَ أَحَدُهُمْ عَنْ مَوْضِعِ يَدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاوُدَ.

الحديث رقم 15 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الجهاد والسير، باب : غزوة بدر، 3 / 1403، الرقم : 1779، ونحوه في کتاب : الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب : عرض مقعد الميت من الجنة أو النار عليه وإثبات عذاب القبر والتعوذ منه، 4 / 2202، الرقم : 2873، وأبو داود في السنن، کتاب : الجهاد، باب : في الأسير ينال منه ويضرب ويقرن، 3 / 58، الرقم : 2071، والنسائي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : أرواح المؤمنين، 4 / 108، الرقم : 2074، وفي السنن الکبري، 1 / 665، الرقم؛ 2201، وابن حبان في الصحيح، 11 / 24، الرقم : 4722، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 219، الرقم : 13320، والبزار في المسند، 1 / 340، الرقم : 222، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 362، الرقم : 36708، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 219، الرقم : 8453، وفي المعجم الصغير، 2 / 233، الرقم : 1085، وأبو يعلي في المسند، 6 / 69، الرقم : 3322، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 102، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 381، الرقم : 5871.

''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ہمیں ابو سفیان کے (قافلہ کی شام سے) آنے کی خبر پہنچی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا : (یا رسول اللہ!) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر آپ ہمیں سمندر میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیں تو ہم سمندر میں گھوڑے ڈال دیں گے، اگر آپ ہمیں برک الغماد پہاڑ سے گھوڑوں کے سینے ٹکرانے کا حکم دیں تو ہم ایسا بھی کریں گے۔ تب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو بلایا لوگ آئے اور وادی بدر میں اُترے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ فلاں کافر کے گرنے کی جگہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین پر اس جگہ اور کبھی اس جگہ دستِ اقدس رکھتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر (دوسرے دن) کوئی کافر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 
عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّّ صلي الله عليه وآله وسلم نَعَي زَيْدًا وَجَعْفَرًا وَابْنَ رَوَاحَةَ رضي الله عنهم لِلنَّاسِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَهُمْ خَبَرُهُمْ، فَقَالَ : أَخَذَ الرَّايَةَ زَيْدٌ فَأُصِيْبَ، ثُمَّ أَخَذَ جَعْفَرٌ فَأُصِيْبَ، ثُمَّ أَخَذَ ابْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِيْبَ. وَعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ حَتَّي أَخَذَ الرَّايَةَ سَيْفٌ مِنْ سُيُوْفِ اﷲِ، حَتَّي فَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِمْ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 16 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : غزوة مؤته من أرض الشام، 4 / 1554، الرقم : 4014، وفي کتاب : الجنائز، باب : الرجل ينعي إلي أهل الميت بنفسه، 1 / 420، الرقم : 1189، وفي کتاب : الجهاد، باب : تمني الشهادة، 3 / 1030، الرقم : 2645، وفي باب : من تأمر في الحرب من غير إمرة إذا خاف العدو، 3 / 1115، الرقم : 2898، وفي کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1328، الرقم : 3431، وفي کتاب : فضائل الصحابة، باب : مناقب خالد بن الوليد رضي الله عنه، 3 / 1372، الرقم : 3547، ونحوه النسائي في السنن الکبري، 5 / 180، الرقم : 8604، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 204، الرقم : 1750، والحاکم في المستدرک، 3 / 337، الرقم : 5295، وقال : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ اْلإِسْنَادِ، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 105، الرقم : 1459 - 1461، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، کتاب : أحوال القيامة وبداء الخلق، باب : في المعجزات، الفصل الأول، 2 / 384، الرقم : 5887.

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت عبد اﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنھم کے متعلق خبر آنے سے پہلے ہی ان کے شہید ہو جانے کے متعلق لوگوں کو بتا دیا تھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اب جھنڈا زید نے سنبھالا ہوا ہے لیکن وہ شہید ہوگئے۔ اب جعفر نے جھنڈا سنبھال لیا ہے اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ اب ابن رواحہ نے جھنڈا سنبھالا ہے اور وہ بھی جام شہادت نوش کرگئے۔ یہ فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مبارک اشک بار تھیں۔ (پھر فرمایا : ) یہاں تک کہ اب اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار (خالد بن ولید) نے جھنڈا سنبھال لیاہے اس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے کافروں پر فتح عطا فرمائی ہے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : إِنَّ رَجُلًا کَانَ يَکْتُبُ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَارْتَدَّ عَنِ الإِسْلَامِ، وَلَحِقَ بِالْمُشْرِکِيْنَ، وَقَالَ : أَنَا أَعْلَمُکُمْ إِنْ کُنْتُ لَأَکْتُبُ مَا شِئْتُ فَمَاتَ ذَلِکَ الرَّجُلُ فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الْأَرْضَ لَمْ تَقْبِلْهُ وَقَالَ أَنَسٌ : فَأَخْبَرَنِي أَبُوْ طَلْحَةَ أَنَّهُ أَتَي الْأَرْضَ الَّتِي مَاتَ فِيْهَا فَوَجَدَهُ مَنْبُوْذًا، فَقَالَ : مَا شَأْنُ هَذَا؟ فَقَالُوْا : دَفَنَّاهُ مِرَارًا فَلَمْ تَقْبِلْهُ الْأَرْضُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْبَيْهَقِيُّ.

الحديث رقم 17 : أخرجه مسلم نحوه في الصحيح، کتاب : صفات المنافقين وأحکامهم، 4 / 2145، الرقم : 2781، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 120، الرقم : 12236، 13348، والبيهقي في السنن الصغري، 1 / 568، الرقم : 1054، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 381، الرقم : 1278، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 387، الرقم : 5798، وأبو المحاسن في معتصرا المختصر، 2 / 188.
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کتابت کیا کرتا تھا وہ اسلام سے مرتد ہوگیا اور مشرکوں سے جا کر مل گیا اور کہنے لگا میں تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں میں آپ کے لئے جو چاہتا تھا لکھتا تھا سو وہ شخص جب مر گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے زمین قبول نہیں کرے گی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ وہ اس زمین پر آئے جہاں وہ مرا تھا تو دیکھا اس کی لاش قبر سے باہر پڑی تھی۔ پوچھا اس کا کیا حال ہے؟ تو لوگوں نے کہا : ہم نے اسے کئی بار دفن کیا ہے مگر زمین نے اسے قبول نہیں کیا۔
حدیث 1ابوداود شریف کتاب الصلوٰت جلد 1صفحہ 67 


--
***Asif Rao***
**Sargodha**

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات

ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے اور برحق نبی ہیں۔ یہ بات بطور مسلم تو ہم لوگ جانتے ہیں اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لائے بغیر کوئی فرد مسلمان نہیں ہوسکتا لیکن عزیز دوستوں اگر ہم غیر مسلم لوگوں تک یہ بات پہنچائیں تو شائد وہ اس طرح یہ بات نہ سمجھیں اور نہ ہی اس پر ایمان لائیں جس طرح کہ بطور مسلم ہم بی بی آمنہ کے لال حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہت مہربان ہے اور وہ ہماری مشکلوں کو جانتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو معجزات عطا کئے تاکہ لوگ ان معجزوں کو دیکھ کر ایمان لے آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کئی معجزات عطا کئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم لوگوں کے سامنے ان معجزات کو بیان کریں اور دین اسلام کی حقانیت لوگوں تک پہنچائیں اس کے بعد جو اپنی اصلاح کرنا چاہے،جو ایمان لانا چاہے،جس کو اللہ ہدایت دینا چاہیں اس کے لئے ان معجزات کے بیان کافی ہونگے۔ نبی اکرم صلی کو اللہ نے کئی معجزات عطا کئے تھے۔ ایسے ہی ایک معجزے کا ذکر سیرت ابن ہشام،البدایہ و النہایہ ،طبقات ابن سعد جلد 14اور دیگر کتب میں ملتا ہے

طفیل بن عمرو قبیلہ دوس کے ایک معزز سردار اور معروف شاعر تھے۔ زمانہ جاہلیت میں جب وہ مکہ میں داخل ہوئے تو قریش کے نامور سرداروں نے ان کا استقبال کیا اور کہا کہ ''اے طفیل تم ہمارے شہر میں آئے ہو ہم تمہیں خوش آمدید کہتے ہیں اور تمہاری خیر خواہی کے لئے مشورہ دیتے ہیں کہ ہمارے ایک نوجوان سے بہت محتاط ہوکر رہنا ۔اس کا معاملہ اب خطرناک ہوگیا ہے۔ اس نے ہماری قوم ٹکڑے کردیئے ہیں اور ہمارا شیرازہ منتشر کردیا ہے ۔ اس کا کلام جادو کی مانند ہے جس سے باپ بیٹے،بھائی بھائی اور میاں بیوی کے درمیان پھوٹ پڑ جاتی ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ جو مصیبت ہمارے اوپر نازل ہوچکی ہے کہیں تم اور تمہاری قوم بھی اس کا شکار نہ ہوجاؤ پس آپ نہ تو اس سے کوئی کلام کریں اور نہ ہی اس کی بات سنیں۔

سرداران قریش نے ان کے اس قدر کان بھرے کہ میں انہوں نے سرداروں کی بات کو سچ جان لیا اور فیصلہ کرلیا کہ وہ نہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات سنوں گا اور نہ ہی ان سے کوئی کلام کرونگا،یہ فیصلہ کرنے کے بعد انہوں نے کانوں میں روئی ٹھونس کر حرم میں جانا شروع کیا کہ کہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جادو ان پر نہ اثر کر جائے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ایک صبح میں مسجد میں آیا تو کعبہ شریف کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں کھڑے دیکھا ،میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کھڑا ہوگیا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کچھ کلام میں نے سن لیا۔ یہ بہت اچھا کلام تھا میں نے اپنے آپ سے کہا '' میری ماں مجھے روئے میں نے یہ کیا طرز عمل اختیار کر رکھا ہے۔ بخدا میں عقلمند بھی ہوں،اور شاعر بھی اچھے بھلے کی خوب تمیز کرسکتا ہوں،پھر اس شخص کا کلام سننے میں کی چیز مانع ہے؟ مجھے اس کا کلام سننا چاہیے۔ اگر اچھی بات ہوئی تو قبول کرلوں گا اور اگر بری بات ہوئی تو رد کردونگا۔

طفیل مزید بیان کرتے ہیں کہ میں نے تھوڑی دیر انتظار کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوکر گھر کی جانب چلے گئے ۔میں بھی آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے ہولیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں داخل ہوگئے میں نے دستک دی اور میں بھی اندر چلا گیا۔ میں نے ''اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کی قوم نے آپ کے بارے میں بہت کچھ کہا۔ انہوں نے اتنا پروپیگنڈا کیا کہ میں اس سے متاثر ہوگیا۔ اس خوف سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میرے کانوں میں نہ پڑ جائے میں نے کانوں میں روئی ٹھونس لی۔مگر اللہ کو منظور تھا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سن لوں چنانچہ میں نے آپ کا کلام سنا اور اسے اچھا پایا ۔پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعوت کا تعارف کرائیں۔ چنانچہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی اور قرآن حکیم کی تلاوت فرمائی ،خدا کی قسم میں نے زندگی بھر اس سے بہتر بات نہ سنی تھی اور نہ اس سے زیادہ انصاف و عدل سے بھر پور کلام مجھ تک پہنچا تھا۔

طفیل کہتے ہیں کہ میں نے اسلام قبول کرلیا اور کلمہ شہادت پڑھ کر آئندہ کے لئے شہادت حق کا فریضہ سر انجام دینے کا عہد کرلیا میں نے عرض کیا کہ ''اے اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی قوم میں محترم و معزز ہوں اور میر بات بات بھی سبھی مانتے ہیں۔ اب میں اپنی قوم کے پاس واپس جارہا ہوں تو انہیں اسلام کی دعوت کیسے دونگا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے دعا کریں اللہ مجھے کوئی ایسی نشانی عطا فرما دے جو دعوت حق کے کام میں میری معاون ثابت ہو۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ''اے اللہ اسے کوئی کرامت نشانی (کرامت )عطا فرما''

میں اپنی قوم کی جانب واپس لوٹا۔ ایک پہاڑی کی چوٹی پر پہنچا جہاں قبیلے کے گھر اور آبادی نظر آتی تھی اچانک میری پیشانی پر دونوں آنکھوں کے درمیان مشعل کی طرح روشنی چمکنے لگی۔ میں نے دعا کی ''اے اللہ یہ روشنی میرے چہرے کے علاوہ کسی اور چیز میں پیدا کردی جائے کیونکہ میری قوم کے جاہل اسے مرض قرار دے کر کہیں گے کہ باپ دادا کے دین کو چھوڑ دینے کی وجہ سے یہ لاحق ہوگیا ہے'' پس وہ روشنی میرے چہرے سے میری چھڑی کے سرے پر آگئی۔ قوم نے دور سے دیکھا جیسے قندیل روشن ہو، میں بلندی سے ان کی جانب اترتا آرہا تھا اور سب لوگ دیکھ رہے تھے یہاں تک کہ اندھیری رات میں مَیں نے سفر طے کیا اور قبیلے کے درمیان اپنے گھر پہنچ گیا۔

(سیرت ابن ہشام قسم اول صفحہ 382۔الاصابہ جلد دوم۔ صفحہ 217 ۔اسد الغابہ جلد سوم صفحہ 54 ۔طبقات ابن سعد جلد 14قسم اول صفحہ 175 بحوالہ معجزاتِ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم از ولید الاعظمی عراق)


--
***Asif Rao***
**Sargodha**

علم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

علم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 
عصر حاضر کے چیلنجیز کا مقابلہ کرنے کے لئےہم امت مسلمہ پر لازم ہے کہ کتاب و سنت کےعلوم سے اپنے سینوں کو معمور کریں اور انوار قرآن وحدیث سے ضلالت و جہالت کی تاریکیوں کا خاتمہ کریں تاکہ دارین کی سعادتیں ہمارامقدر بنیں ،کیونکہ حق تعالی نے ہمیں اس خاتم النبین کی امت میں پیدا کیا ہے جنہیں اس نے علوم و معارف' حقائق و اسرار کے خزانے عطا فرماکر صبح قیامت تک آنے والی نسل انسانی کی رشد و ہدایت کے لئے اس خاکدان گیتی میں جلوہ گر فرمایا' سورۃ النساء آیت 113 میں ارشاد باری ہے:
وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا-
ترجمہ: اور اللہ نے آپ پر کتاب وحکمت نازل فرمائی اور اس نے آپ کو وہ سب علوم عطا کردئیے جو آپ نہیں جانتے تھے،اور یہ آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔
جامع ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم دونوں دستہائے مبارکہ میں دو کتابیں لے ہوئے برآمد ہوئے اور فرمایا :تم جانتے ہو کہ یہ دو کتابیں کیا ہیں؟ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! آپ کے بتلائے بغیر ہم نہیں جان سکتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدھے دست مبارک کی کتاب کے متعلق فرمایا کہ یہ رب العالمین کی طرف سے ایک کتاب ہے، اس میں جنتیوں کے نام اور ان کے باپ دادا اور قبیلوں کے نام ہیں اور پھر آخر میں سب کی جملہ تعداد بتلادی گئی ہے، ان میں نہ کبھی اضافہ کیا جائے گا اور نہ کمی' پھر اس کتاب کی نسبت فرمایا جو بائیں دست مبارک میں تھی: یہ رب العالمین کی طرف سے ایک کتاب ہے اس میں دوزخیوں کے نام اور ان کے آباء اور قبائل کے نام ہیں، جس کے آخر میں سب کی جملہ تعداد درج کردی گئی ہے' ان میں نہ تو کبھی اضافہ کیا جائے گا اور نہ کمی (جامع ترمذی: 2291) ۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَفِى يَدِهِ كِتَابَانِ فَقَالَ : أَتَدْرُونَ مَا هَذَانِ الْكِتَابَانِ. فَقُلْنَا لاَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلاَّ أَنْ تُخْبِرَنَا. فَقَالَ لِلَّذِى فِى يَدِهِ الْيُمْنَى هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ فِيهِ أَسْمَاءُ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَسْمَاءُ آبَائِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ ثُمَّ أُجْمِلَ عَلَى آخِرِهِمْ فَلاَ يُزَادُ فِيهِمْ وَلاَ يُنْقَصُ مِنْهُمْ أَبَدًا. ثُمَّ قَالَ لِلَّذِى فِى شِمَالِهِ هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ فِيهِ أَسْمَاءُ أَهْلِ النَّارِ وَأَسْمَاءُ آبَائِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ ثُمَّ أُجْمِلَ عَلَى آخِرِهِمْ فَلاَ يُزَادُ فِيهِمْ وَلاَ يُنْقَصُ مِنْهُمْ أَبَدًا-
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ا لکٹرانک میڈیا کے ذریعہ لمحہ بھر میں ایک مقام کی خبر ساری دنیا میں پہنچ جاتی ہے اور میڈیا کی وساطت سے پروگرامز (Live) نشر کئے جاتے ہیں'قربان جائیں حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اعجاز علمی پر کہ آپ نے کسی ظاہری وسائل کے بغیر محض بہ عطائے خداوندی کائنات پست و بالا میں ہونے والے واقعات کی خبر دی۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک شام میں ہونے والے ''معرکہ موتہ'' کی ترتیب وار خبر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مدینہ منورہ میںعطا فرمائی ' صحیح بخاری شریف میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
عَنْ أَنَسٍ رضى الله عنه أَنَّ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم نَعَى زَيْدًا وَجَعْفَرًا وَابْنَ رَوَاحَةَ لِلنَّاسِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَهُمْ خَبَرُهُمْ ، فَقَالَ أَخَذَ الرَّايَةَ زَيْدٌ فَأُصِيبَ ، ثُمَّ أَخَذَ جَعْفَرٌ فَأُصِيبَ ، ثُمَّ أَخَذَ ابْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِيبَ ، وَعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ ، حَتَّى أَخَذَ سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ حَتَّى فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ .
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید ' حضرت جعفر اور حضرت ابن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی شہادت کی خبر' ان کے بارے میں وہاں سے باضابطہ اطلاع آنے سے قبل ہی صحابہ کو عطافرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پرچم اسلام کو زید رضی اللہ عنہ نے لیا اور وہ شہید ہوگئے' پھر جعفر رضی اللہ عنہ نے پرچم اسلام تھام لیا اور جام شہادت نوش کرلیا' پھر ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے عَلم اسلام سنبھالا اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چشمان اقدس سے آنسو رواں تھے۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا) یہاں تک کہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد ابن ولید رضی اللہ عنہ نے اسلام کا جھنڈا لیا اور اللہ نے اہل اسلام کو فتح و نصرت سے ہمکنار کیا۔ (صحیح بخاری ' حدیث نمبر: 3757)۔
مسند امام احمد میں روایت ہے:
عَنْ مُنْذِرٍ حَدَّثَنَا أَشْيَاخٌ مِنَ التَّيْمِ قَالُوا قَالَ أَبُو ذَرٍّ لَقَدْ تَرَكَنَا مُحَمَّدٌ صلى الله عليه وسلم وَمَا يُحَرِّكُ طَائِرٌ جَنَاحَيْهِ فِى السَّمَاءِ إِلاَّ أَذْكَرَنَا مِنْهُ عِلْماً.
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حال ميں ہمیں رخصت کیا کہ فضا میں محو پرواز ہر قسم کے پرندوںتک کے بارے میں آپ نے ہمیں آگہی بخشی ہے(مسند امام احمد' حدیث نمبر: 21970)۔
صحیح بخاری شریف میں روایت ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کا گذر دو قبروں پر سے ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ان دونوں کو عذاب ہورہا ہے اور عذاب کسی ایسی وجہ سے نہیں ہورہا ہے جس سے بچنا دشوار تھا 'ان میں سے ایک تو پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلخوری کرتا پھرتا تھا، پھر آپ نے ایک سبز شاخ منگواکر اس کے دو حصے کئے اور ہر ایک ٹکڑا ہر قبر پر لگادیا' صحابہ نے عرض کیا: اس کی حکمت کیا ہے؟ یا رسول اللہ ! ارشاد فرمایا: جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی ۔ (صحیح بخاری شریف،کتاب الجنائز، باب الجريد على القبر،حدیث نمبر:1361)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضى الله عنهما ، عَنِ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ مَرَّ بِقَبْرَيْنِ يُعَذَّبَانِ فَقَالَ : إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ ۔ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِى كَبِيرٍ ،أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لاَ يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ ، وَأَمَّا الآخَرُ فَكَانَ يَمْشِى بِالنَّمِيمَةِ . ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا بِنِصْفَيْنِ ، ثُمَّ غَرَزَ فِى كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً . فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ ، لِمَ صَنَعْتَ هَذَا ؟ فَقَالَ : لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا .
اس موقع پر آپ نے بیک وقت ماضی ، حال و مستقبل کی خبر دی کہ حالیہ قبر میں ہورہے عذاب کو بھی ملاحظہ فرمایا اور ماضی میں کئے گئے ان کی خطاؤں کی بھی نشاندہی فرمائی اور مستقبل کے بارے میں فرمایا کہ جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں اُن کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی

''
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (معراج کی رات) میرا رب میرے پاس (اپنی شان کے لائق) نہایت حسین صورت میں آیا اور فرمایا : یا محمد! میں نے عرض کیا : میرے پروردگار! میں حاضر ہوں بار بار حاضر ہوں۔ فرمایا : عالمِ بالا کے فرشتے کس بات میں جھگڑتے ہیں؟ میں نے عرض کیا : اے میرے پروردگار! میں نہیں جانتا۔ پس اﷲ تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا اور میں نے اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس کی۔ اور میں وہ سب کچھ جان گیا جو کچھ مشرق و مغرب کے درمیان ہے۔''
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ہی مروی ایک اور روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور میں جان گیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی : ''اور اسی طرح ہم ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہتیں (یعنی عجائباتِ خلق) دکھا رہے ہیں اور (یہ) اس لئے کہ وہ عین الیقین والوں میں سے ہو جائے۔'' (الانعام، 6 : 75)۔

''اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور مجھ پر ہر شے کی حقیقت ظاہر کر دی گئی جس سے میں نے (سب کچھ) جان لیا۔''

''
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس مجھ سے دنیا و آخرت کے بارے میں کیئے جانے والے سوالات کے جوابات میں نے اسی مقام پر جان لئے۔''

''
اور ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور میں نے دنیا و آخرت کی ہر ایک شے کی حقیقت جان بھی لی اور دیکھ بھی لی۔''

''
اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس مجھ سے جب بھی کسی چیز کے متعلق سوال کیا گیا تو میں نے اسے جان لیا۔ پس اس کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھ سے کسی شے کے متعلق سوال کیا گیا ہو اور میں اسے جانتا نہ ہوں۔'
عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه في رواية طويلة أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم شَاوَرَ، حِيْنَ بَلَغَنَا إِقَبَالُ أَبِي سُفْيَانَ، وَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ رضي الله عنه فَقَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِيْضَهَا الْبَحْرَ لَأَخَضْنَاهَا. وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَکْبَادَهَا إلَي بَرْکِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا. قَالَ : فَنَدَبَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم النَّاسَ، فَانْطَلَقُوْا حَتَّي نَزَلُوْا بَدْرًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ قَالَ : وَيَضَعُ يَدَهُ عَلَي الْأَرْضِ، هَاهُنَا وَهَاهُنَا. قَالَ : فَمَا مَاتَ أَحَدُهُمْ عَنْ مَوْضِعِ يَدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاوُدَ.

الحديث رقم 15 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الجهاد والسير، باب : غزوة بدر، 3 / 1403، الرقم : 1779، ونحوه في کتاب : الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب : عرض مقعد الميت من الجنة أو النار عليه وإثبات عذاب القبر والتعوذ منه، 4 / 2202، الرقم : 2873، وأبو داود في السنن، کتاب : الجهاد، باب : في الأسير ينال منه ويضرب ويقرن، 3 / 58، الرقم : 2071، والنسائي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : أرواح المؤمنين، 4 / 108، الرقم : 2074، وفي السنن الکبري، 1 / 665، الرقم؛ 2201، وابن حبان في الصحيح، 11 / 24، الرقم : 4722، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 219، الرقم : 13320، والبزار في المسند، 1 / 340، الرقم : 222، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 362، الرقم : 36708، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 219، الرقم : 8453، وفي المعجم الصغير، 2 / 233، الرقم : 1085، وأبو يعلي في المسند، 6 / 69، الرقم : 3322، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 102، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 381، الرقم : 5871.

''
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ہمیں ابو سفیان کے (قافلہ کی شام سے) آنے کی خبر پہنچی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا : (یا رسول اللہ!) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر آپ ہمیں سمندر میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیں تو ہم سمندر میں گھوڑے ڈال دیں گے، اگر آپ ہمیں برک الغماد پہاڑ سے گھوڑوں کے سینے ٹکرانے کا حکم دیں تو ہم ایسا بھی کریں گے۔ تب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو بلایا لوگ آئے اور وادی بدر میں اُترے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ فلاں کافر کے گرنے کی جگہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین پر اس جگہ اور کبھی اس جگہ دستِ اقدس رکھتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر (دوسرے دن) کوئی کافر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 
عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّّ صلي الله عليه وآله وسلم نَعَي زَيْدًا وَجَعْفَرًا وَابْنَ رَوَاحَةَ رضي الله عنهم لِلنَّاسِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَهُمْ خَبَرُهُمْ، فَقَالَ : أَخَذَ الرَّايَةَ زَيْدٌ فَأُصِيْبَ، ثُمَّ أَخَذَ جَعْفَرٌ فَأُصِيْبَ، ثُمَّ أَخَذَ ابْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِيْبَ. وَعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ حَتَّي أَخَذَ الرَّايَةَ سَيْفٌ مِنْ سُيُوْفِ اﷲِ، حَتَّي فَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِمْ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 16 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : غزوة مؤته من أرض الشام، 4 / 1554، الرقم : 4014، وفي کتاب : الجنائز، باب : الرجل ينعي إلي أهل الميت بنفسه، 1 / 420، الرقم : 1189، وفي کتاب : الجهاد، باب : تمني الشهادة، 3 / 1030، الرقم : 2645، وفي باب : من تأمر في الحرب من غير إمرة إذا خاف العدو، 3 / 1115، الرقم : 2898، وفي کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1328، الرقم : 3431، وفي کتاب : فضائل الصحابة، باب : مناقب خالد بن الوليد رضي الله عنه، 3 / 1372، الرقم : 3547، ونحوه النسائي في السنن الکبري، 5 / 180، الرقم : 8604، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 204، الرقم : 1750، والحاکم في المستدرک، 3 / 337، الرقم : 5295، وقال : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ اْلإِسْنَادِ، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 105، الرقم : 1459 - 1461، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، کتاب : أحوال القيامة وبداء الخلق، باب : في المعجزات، الفصل الأول، 2 / 384، الرقم : 5887.
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت عبد اﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنھم کے متعلق خبر آنے سے پہلے ہی ان کے شہید ہو جانے کے متعلق لوگوں کو بتا دیا تھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اب جھنڈا زید نے سنبھالا ہوا ہے لیکن وہ شہید ہوگئے۔ اب جعفر نے جھنڈا سنبھال لیا ہے اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ اب ابن رواحہ نے جھنڈا سنبھالا ہے اور وہ بھی جام شہادت نوش کرگئے۔ یہ فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مبارک اشک بار تھیں۔ (پھر فرمایا : ) یہاں تک کہ اب اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار (خالد بن ولید) نے جھنڈا سنبھال لیاہے اس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے کافروں پر فتح عطا فرمائی ہے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : إِنَّ رَجُلًا کَانَ يَکْتُبُ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَارْتَدَّ عَنِ الإِسْلَامِ، وَلَحِقَ بِالْمُشْرِکِيْنَ، وَقَالَ : أَنَا أَعْلَمُکُمْ إِنْ کُنْتُ لَأَکْتُبُ مَا شِئْتُ فَمَاتَ ذَلِکَ الرَّجُلُ فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الْأَرْضَ لَمْ تَقْبِلْهُ وَقَالَ أَنَسٌ : فَأَخْبَرَنِي أَبُوْ طَلْحَةَ أَنَّهُ أَتَي الْأَرْضَ الَّتِي مَاتَ فِيْهَا فَوَجَدَهُ مَنْبُوْذًا، فَقَالَ : مَا شَأْنُ هَذَا؟ فَقَالُوْا : دَفَنَّاهُ مِرَارًا فَلَمْ تَقْبِلْهُ الْأَرْضُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْبَيْهَقِيُّ.

الحديث رقم 17 : أخرجه مسلم نحوه في الصحيح، کتاب : صفات المنافقين وأحکامهم، 4 / 2145، الرقم : 2781، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 120، الرقم : 12236، 13348، والبيهقي في السنن الصغري، 1 / 568، الرقم : 1054، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 381، الرقم : 1278، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 387، الرقم : 5798، وأبو المحاسن في معتصرا المختصر، 2 / 188.
''
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کتابت کیا کرتا تھا وہ اسلام سے مرتد ہوگیا اور مشرکوں سے جا کر مل گیا اور کہنے لگا میں تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں میں آپ کے لئے جو چاہتا تھا لکھتا تھا سو وہ شخص جب مر گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے زمین قبول نہیں کرے گی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ وہ اس زمین پر آئے جہاں وہ مرا تھا تو دیکھا اس کی لاش قبر سے باہر پڑی تھی۔ پوچھا اس کا کیا حال ہے؟ تو لوگوں نے کہا : ہم نے اسے کئی بار دفن کیا ہے مگر زمین نے اسے قبول نہیں کیا۔
حدیث 1ابوداود شریف کتاب الصلوٰت جلد 1صفحہ 67 
--
***Asif Rao***
**Sargodha**

 
Copyright © 2010 Shan-e-Mustafa. All rights reserved.