29 Nov 2011

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم کے مطابق اچھا سلوک رہتا


عراق‘ مصر اور شام کے دفتر مال گزاری کا حساب کتاب وہاں کی زبانوں میں رکھا جاتاتھا اس لیے حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں وہاں کے حساب کتاب کرنے والے مجوسی‘ عیسائی یا قبطی تھے۔ ان کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم کے مطابق اچھا سلوک رہتا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے بستر مرگ پر بھی ذمیوں کا خیال رہا۔انہوں نے فرمایا میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو ذمیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تلقین کرتا ہوں‘ ان سے جو عہد کیا جائے اس کی پابندی کی جائے‘ ان کے دشمنوں کے خلاف ان کا دفاع کیا جائے اور ان پر ان کی برداشت سے زیادہ بار نہ ڈالا جائے۔وہ عمال (گورنر وغیرہ) کی خطائوں کی سخت گرفت کرتے‘ ایک بار عوام سے مخاطب ہوکر فرمایا: اللہ کی قسم میں اپنے عمال (گورنر) کو تمہارے پاس اس لیے نہیں بھیجتا ہوں کہ وہ تمہارے منہ پر تم کو چانٹے ماریں‘ تمہارا مال چھین لیں‘ وہ اس لیے بھیجے جاتے ہیں کہ تم کو تمہارا دین اور تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سکھائیں‘ اگر کوئی ذمہ دار کسی سے دین اور سنت سے ہٹ کر سلوک کرے تو میں اس سے مظلوم کا بدلہ لیکر رہوں گا یہ سن کر عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہہ اٹھے کہ اگر کوئی مسلمان گورنر اپنی رعایا کی تادیب کرے تو کیا اس سے بھی قصاص لیا جائےگا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا: ہاں! میں اس سے ضرور قصاص لونگا‘ میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اپنے سے قصاص دلواتے دیکھا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہوجاتا کہ کوئی حکومتی ذمہ دار اپنے نمود و ترفع کا اظہار کرتا ہے‘ بیمار کی عیادت نہیں کرتا ہے‘ کمزور اس کے دربار میں پہنچ نہیں پاتے ہیں تو اس کو معزول کردیتے‘ انہوں نے عمال (گورنروغیرہ)کو ہدایت دے رکھی تھی کہ وہ ترکی گھوڑے پر نہ سوار ہوں‘ باریک کپڑے نہ پہنیں‘ چھنا ہوا آٹا نہ کھائیں‘ دروازہ پر دربان نہ رکھیں‘ اہل حاجت کیلئے ہمیشہ دروازہ کھلا رکھیں۔ اگر کوئی ان ہدایتوں کی خلاف ورزی کرتا تو اس کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرتے۔

0 comments:

Post a Comment

 
Copyright © 2010 Shan-e-Mustafa. All rights reserved.