12 Dec 2011

ُام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ


ُام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

نام ونسب
خدیجہ نام‘ ام ہند کنیت‘ طاہرہ لقب۔ سلسلہ نسب یہ ہے خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی‘ قصی پر پہنچ کر ان کا خاندان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے مل جاتا ہے۔ والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ تھا اور لوی بن غالب کے دوسرے بیٹے عامر کی اولاد تھی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد اپنے قبیلہ میں نہایت معزز شخص تھے مکہ آکر اقامت کی۔ عبدالدار ابن قصی کے‘ جوا ان کے ابن عم تھے‘ حلیف بنے اور یہیں فاطمہ بنت زائدہ سے شادی کی ہے جن کے بطن سے عام الفیل سے 15سال قبل حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئیں۔
سن شعور کو پہنچیں تو اپنے پاکیزہ اخلاق کی بناءپر طاہرہ کے لقب سے مشہور ہوئیں۔

تجارت
باپ اور شوہر کے مرجانے کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو سخت دقت واقع ہوئی ذریعہ معاش تجارت تھی جس کا کوئی نگران نہ تھا۔ تاہم اپنے اعزہ کو معاوضہ دیکر مال تجارت بھیجتی تھیں۔ ایک مرتبہ مال کی روانگی کا وقت آیا تو ابوطالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ تم کو خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جاکر ملنا چاہیے ان کا مال شام جائے گا۔ بہتر ہوگا کہ تم بھی ساتھ جاتے۔ میرے پاس روپیہ نہیں‘ ورنہ میں خود تمہارے لیے سرمایہ مہیا کردیتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہرت امین کے لقب سے تمام مکہ میں تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن معاملت‘ راست بازی‘ صدق ودیانت اور پاکیزہ اخلاقی کا عام چرچا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس گفتگو کی خبر ملی تو فوراً پیغام بھیجا کہ آپ میرا مال تجارت لیکر شام کو جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا اور مال تجارت لیکر میسرہ (غلام خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے ہمراہ بصرہ تشریف لے گئے‘ اس سال کا نفع سالہائے گزشتہ کے نفع سے دوگنا تھا۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی دولت و ثروت اور شریفانہ اخلاق نے تمام قریش کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا اور ہر شخص ان سے نکاح کا خواہاں تھا لیکن کارکنان قضاو قدر کی نظر انتخاب کسی اور پر پڑچکی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مال تجارت لیکر شام سے واپس آئے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شادی کا پیغام بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا اور شادی کی تاریخ مقرر ہوگئی۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 25سال کے تھے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر چالیس برس کی تھی۔ یہ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پندرہ سال قبل کا واقعہ ہے۔

اسلام
پندرہ برس کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر ہوئے اور فرائض نبوت کو ادا کرنا چاہا تو سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ پیغام سنایا‘ وہ سننے سے پہلے مومن تھیں کیونکہ ان سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدق دعویٰ کا کوئی شخص فیصلہ نہیں کرسکتا تھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء رئویائے صادقہ سے ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوکچھ خواب میں دیکھتے تھے سپیدہ صبح کی طرح نمودار ہوجاتا۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلوت گزین ہوگئے چنانچہ کھانے پینے کا سامان لیکر غار حرا تشریف لے جاتے اور وہاں تخث یعنی عبادت کرتے تھے جب سامان ہوختم ہوجاتا تو پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے پاس تشریف لاتے اور پھر واپس جاکر مراقبہ میں مصروف ہوتے‘ یہاں تک کہ ایک فرشتہ غیب نظر آیا کہ آپ سے کہہ رہا ہے پڑھ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں پڑھا لکھا نہیں‘ اس نے زور سے دبایا‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا اور کہا پڑھ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں پڑھا لکھا نہیں‘ پھر اس نے دوبارہ زور سے دبایا اور چھوڑ دیا اورکہا پڑھ‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا میں پڑھا لکھا نہیں‘ اسی طرح تیسری بار دبا کر کہا پڑھ اس خدا کا نام جس نے کائنات کو پیدا کیا‘ جس نے آدمی کو گوشت کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھ تیرا خدا کریم ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو جلال الٰہی سے لبریز تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے تمام واقعہ بیان کیا اور کہا ” مجھ کو ڈر ہے“ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا آپ متردد نہ ہوں خدا آپ کا ساتھ نہ چھوڑے گا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں‘ بے کسوں اور فقیروں کے معاون رہتے ہیں‘ مہمان نوازی اور مصائب میں حق کی حمایت کرتے ہیں‘ پھر وہ آپ کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو مذہباً نصرانی تھے عبرانی زبان جانتے تھے اور عبرانی زبان میں انجیل لکھا کرتے تھے اب وہ بوڑھے اور نابینا ہوگئے تھے‘ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے کہا کہ اپنے بھتیجے (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) کی باتیں سنو۔ بولے ابن الاخ تم نے کیا دیکھا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ کی کیفیت بیان کی تو کہا یہ وہی ناموس ہے جو موسیٰ ؑ پر اترا تھا‘ کاش مجھ میں اس وقت قوت ہوتی اور زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو شہر بدر کرے گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا ہاں۔ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا جب کسی پر نازل ہوتا ہے تو دنیا اس کی دشمن ہوجاتی ہے اور اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو تمہاری وزنی مدد کروں گا۔ اس کے بعد ورقہ کا بہت جلد انتقال ہوگیا اور وحی کچھ دنوں کیلئے رک گئی۔
اس وقت تک نماز پنجگانہ فرض نہ تھی‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نوافل پڑھا کرتے تھے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی آپ کے ساتھ نوافل میں شرکت کرتی تھیں۔ ابن سعد کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک عرصہ تک خفیہ طور پر نماز پڑھتے رہے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے صرف نبوت کی تصدیق ہی نہیں کی بلکہ آغاز اسلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی معین و مددگار ثابت ہوئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو چندسال تک کفار مکہ اذیت دیتے ہوئے ہچکچاتے تھے اس میں بڑی حد تک حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا اثر کام کررہا تھا اوپر گزر چکا ہے کہ آغازنبوت میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ مجھ کو ڈر ہے تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم متردد نہ ہوں خدا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑے گا۔ جب مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی اور تشفی دی۔

وفات
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نکاح کے بعد پچیس برس تک زندہ رہیں اور گیارہ رمضان ہجرت سے تین سال قبل انتقال فرمایا۔ اس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر 64 سال 6 ماہ کی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی قبر میں اترے اور اپنی سب سے بڑی غمگسار کو داعی اجل کے سپرد کیا۔ حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد ان ہی سے پیدا ہوئی۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وہ مقدس خاتون ہیں جنہوں نے نبوت سے پہلے بت پرستی چھوڑ دی تھی ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کو جو محبت تھی وہ اس سے ظاہر ہے کہ باوجود اس تمول اور اس دولت و ثروت کے جو ان کو حاصل تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت خود کرتی تھیں ۔ایک مرتبہ حضرت جبرائیل ؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہابرتن میں کچھ لارہی ہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو خدا کا اور میرا سلام پہنچا دیجئے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بے انتہا محبت تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی تک دوسری شادی نہیں کی ان کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا تو آپ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی سہیلیوں کے پاس گوشت بھجواتے تھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ گو میںنے خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نہیں دیکھا لیکن مجھ کو جس قدر ان پر رشک آتا تھا کسی اور پر نہیں آتا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ان کا ذکر کیا کرتے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭

0 comments:

Post a Comment

 
Copyright © 2010 Shan-e-Mustafa. All rights reserved.