حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کا یمن تبلیغ کیلئے انتخاب کیا‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پہلے تو اس کام کو دشوار سمجھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینہ پر دست مبارک رکھ کر دعا فرمائی کہ” اے اللہ! اس کی زبان کو راست گو بنا اور اس کے دل کو ہدایت کے نور سے منور کردے۔“ اس کے بعد ان کے سر پر عمامہ باندھا اور سیاہ علم دے کر یمن کی طرف روانہ کیا‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے حسن تدبیر اور حسن سلوک سے وہاں کا رنگ کچھ ایسا بدل دیا کہ ہمدان کا پورا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔ ( خلفائے راشدین)
خارجی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف برابر سازش کرتے رہے‘ وہ مجوسیوں‘ مرتدوں‘ نومسلموں اور ذمیوں کو بغاوت پر آمادہ کرتے رہتے مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان بغاوتوں کو بڑے صبرو تحمل سے فروکیا اور جب وہ زیر ہوگئے تو ان سے لطف و ترحم کا برتائو کیا‘ ایرانی باغی ان کے فیاضانہ سلوک سے یہ کہہ اٹھے تھے کہ امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے طریق جہاں بانی نے تو نوشیروانی طرز حکومت کی یاد بھلادی۔حضرت علی رضی اللہ عنہ ذمیوں کے ساتھ ہمیشہ شفقت و محبت کا برتائو رکھا‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے جتنے معاہدے کیے تھے ان کو برقرار رکھا‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حجاز کے عیسائیوں کو نجران یمن سے جلاوطن کرکے نجران عراق میں آباد کرادیا تھا کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف گھوڑے اور اسلحہ جمع کرنا شروع کردئیے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں وہ واپس آنا چاہتے تھے اور جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس کیلئے درخواست کی تو انہوں نے منظور کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے بہت موزوں ہوتے تھے پھر بھی ان کیلئے یہ تحریر لکھ دی کہ تم لوگ میرے پاس اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تحریر لیکر آئے ہو جس میں تمہارے لیے تمہاری جان‘ تمہارے مال کے سلسلے میں شرط لکھی ہے تمہارے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ میں نے پورا کردیا۔ لہٰذا اب جو مسلمان ان کے یہاں جائے اسے ان وعدوں کو پورا کرنا چاہیے جو ان کے ساتھ کیے گئے ہیں نہ انکو دبایا جائے نہ ان کیساتھ ظلم کیا جائے نہ انکے حقوق میں سے کسی قسم کی کمی کی جائے۔
خارجی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف برابر سازش کرتے رہے‘ وہ مجوسیوں‘ مرتدوں‘ نومسلموں اور ذمیوں کو بغاوت پر آمادہ کرتے رہتے مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان بغاوتوں کو بڑے صبرو تحمل سے فروکیا اور جب وہ زیر ہوگئے تو ان سے لطف و ترحم کا برتائو کیا‘ ایرانی باغی ان کے فیاضانہ سلوک سے یہ کہہ اٹھے تھے کہ امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے طریق جہاں بانی نے تو نوشیروانی طرز حکومت کی یاد بھلادی۔حضرت علی رضی اللہ عنہ ذمیوں کے ساتھ ہمیشہ شفقت و محبت کا برتائو رکھا‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے جتنے معاہدے کیے تھے ان کو برقرار رکھا‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حجاز کے عیسائیوں کو نجران یمن سے جلاوطن کرکے نجران عراق میں آباد کرادیا تھا کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف گھوڑے اور اسلحہ جمع کرنا شروع کردئیے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں وہ واپس آنا چاہتے تھے اور جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس کیلئے درخواست کی تو انہوں نے منظور کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے بہت موزوں ہوتے تھے پھر بھی ان کیلئے یہ تحریر لکھ دی کہ تم لوگ میرے پاس اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تحریر لیکر آئے ہو جس میں تمہارے لیے تمہاری جان‘ تمہارے مال کے سلسلے میں شرط لکھی ہے تمہارے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ میں نے پورا کردیا۔ لہٰذا اب جو مسلمان ان کے یہاں جائے اسے ان وعدوں کو پورا کرنا چاہیے جو ان کے ساتھ کیے گئے ہیں نہ انکو دبایا جائے نہ ان کیساتھ ظلم کیا جائے نہ انکے حقوق میں سے کسی قسم کی کمی کی جائے۔
0 comments:
Post a Comment