31 Dec 2011

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی مذہبی رواداری

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی مذہبی رواداری
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت بھی زیادہ تر پر آشوب اور پرشور رہا‘ ان کی خلافت کی مدت پانچ سال رہی‘ لڑائیوں اوربغاوتوں کی بدولت ان کو وہ سکون حاصل نہ ہوسکاجو حکمرانی کیلئے ضروری ہے مگر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ میں تربیت پائی تھی اس لیے زہد‘ تقویٰ‘ عبادت‘ تواضع‘ انفاق فی سبیل اللہ اور حسن سلوک میں جو اعلیٰ نمونے پیش کیے جاسکتے ہیں وہ ان کی زندگی میں ملتے ہیں‘ شجاعت میں کوئی معاصران کا حریف نہ تھا مگر وہ برابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر عمل فرماتے رہے کہ بہادر وہ نہیں ہے جو دشمن کو بچھاڑ دے بلکہ وہ ہے جو اپنے نفس کو زیر کرے۔ ان کی زندگی کا یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ ایک لڑائی میں ایک یہودی کو پچھاڑ کر اس کے سینے پر سوار ہوگئے اور اس کو ہلاک کرنا چاہتے تھے کہ اس نے ان کے منہ پر تھوک دیا تو یکایک اس کے سینے پر سے اتر کر علیحدہ ہوگئے‘ یہودی نے متعجب ہوکر اس طرح علیحدہ ہونے کی وجہ پوچھی تو بتایا کہ پہلے تمہیں اللہ کی خاطر ہلاک کرنا چاہتا تھا تم نے میرے منہ پر تھوکا تو اب میں تم کو ہلاک کرتا تو اپنے نفس کی خاطر کرتا جو صحیح نہیں ہوتا‘ یہ سن کر یہودی مسلمان ہوگیا۔
وہ اپنے حسن سلوک کی وجہ سے بے حد مقبول رہے‘ ان کے اسی وصف پر بھروسہ کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے اشاعت اسلام کاکام برابر لیتے رہے‘ فتح مکہ کے بعد حضرت خالدرضی اللہ تعالیٰ عنہ بنوخزیمہ میں تبلیغ اسلام کیلئے مامور ہوئے اس قبیلہ نے پہلے تو اسلام قبول کرلیا پھر منحرف ہوگیا‘ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے ان میں سے کچھ لوگوں کو قید اور کچھ کو قتل کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ ہوا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حسن معاملہ کی کارکردگی پر پورا اعتماد تھا‘ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلطی کی تلافی کیلئے ان کو بنی خزیمہ کے پاس بھیجا‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رواداری سے کام لیا‘ قیدیوں کو رہا کردیا اور مقتولین کے وارثوں کو خون بہا دیا۔ (فتح الباری ج8 ص 46)

0 comments:

Post a Comment

 
Copyright © 2010 Shan-e-Mustafa. All rights reserved.