حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ اگرچہ کمسن تھے لیکن استقامت و جانثاری میں کسی سے پیچھے نہ تھے قبول اسلام کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ کسی نے مشہور کردیا کہ مشرکین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کرلیا ہے یہ سننا تھا کہ جذبہ عشق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بے خود ہوکر اسی وقت ننگی تلوار کھینچ کر مجمع کو چیرتے ہوئے آستانہ اقدس پر حاضر ہوئے' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو پوچھا "زبیر! یہ کیا ہے؟ عرض کی مجھے معلوم ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔" ننھے زبیر کا یہ جذبہ دیکھ کر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور ان کیلئے دعا خیر فرمائی۔
اہل سیر فرماتے ہیں کہ یہ پہلی تلوار تھی جو راہ فدویت وجانثاری میں ایک بچہ کے ہاتھ سے برہنہ ہوئی۔
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا خوف آخرت
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے پوچھا "آخر کیا وجہ ہے کہ میں نے آپ کو کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور فلاں فلاں صاحب کو احادیث بیان کرتے سنا ہے۔" یہ سن کر حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے فرمایا " میں اسلام لانے کے بعد کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا نہیں ہوا لیکن میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ جملہ فرماتے ہوئے سنا ہے" جس نے جان بوجھ کر کسی بات کو میری طرف منسوب کیا تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی دولت
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے تمول اور مالداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے تمام مال کا تخمینہ پانچ کروڑ دو لاکھ درہم (یا دینار) کیا گیا تھا لیکن اس قدر مال کے باوجود بائیس لاکھ کے مقروض تھے اس کی وجہ سے تھی کہ عموماً لوگ اپنا مال ان کے پاس جمع کرتے تھے لیکن یہ احتیاط کے خیال سے سب سے کہہ دیتے تھے کہ امانت نہیں بلکہ قرض کی حیثیت سے لیتا ہوں' اسی طرح بائیس لاکھ کے مقروض ہوگئے۔جب حضرت زبیر رضی اللہ عنہ جنگ جمل کیلئے تیار ہوئے تو انہوں نے اپنے صاحبزادہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا "جان پدر! مجھے سب سے زیادہ خیال اپنے قرضہ کا ہے' اس لیے میرا مال ومتاع بیچ کر سب سے پہلے قرضہ ادا کرنا اور جو باقی بچے اس میں سے ایک تہائی تمہارے بچوں کووصیت کرتا ہوں ہاں! اگر کفایت نہ کرے تو میرے مولیٰ کی طرف رجوع کرنا۔" حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا "آپ کا مولیٰ کون ہے؟" فرمایا "میرامولیٰ خدا ہے جس نے مصیبت کے وقت میری دستگیری کی ہے۔"
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حسب وصیت مختلف آدمیوں کے ہاتھ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی جاگیر بیچ کر قرضہ ادا کرنے کا انتظام کیا اور چار برس تک زمانہ حج میں اعلان کرتے رہے کہ زبیر رضی اللہ عنہ پر جس کا قرض ہو آکر مجھ سے وصول کرلے' غرض اس طرح سے قرض ادا کرنے کے بعد اتنی رقم باقی رہی کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی چار بیویوں میں سے ہر ایک کو بارہ بارہ لاکھ حصہ ملا' موصی لہ اور دوسرے وارث اس کے علاوہ تھے۔
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی فکر آخرت
حضرت عبداللہ بن زیبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ان آیات کا نزول ہوا۔ ترجمہ: "آپ کو بھی مرنا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے' پھر قیامت کے دن تم مقدمات اپنے رب کے سامنے پیش کروگے۔" (الزمر: 31,30)
توحضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا "یارسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم خاص خاص گناہوں کے ساتھ ہم پر وہ جھگڑے بھی بارہا پیش کیے جائیں گے جو دنیا میں ہمارے آپس میں تھے؟" حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ہاں! یہ مقدمات بار بار پیش کیے جاتے رہیں گے' یہاں تک کہ ہر حق والے کو اس کا حق مل جائے گا۔" یہ سن کر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا "اللہ کی قسم! پھر تو معاملہ بہت سخت ہے۔"
مجلس کا کفارہ
ایک مرتبہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا "یارسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں تو ہم زمانہ جاہلیت کی باتیں شروع کردیتے ہیں۔" حضور صلی اللہ علیہ وسلم اقدس نے ارشاد فرمایا: " جب تم ایسی مجلسوں میں بیٹھو جن میں تمہیں اپنے بارے میں ڈر ہو کہ تم سے غلط باتیں ہوگئی ہوں گی تو اٹھتے وقت یہ کلمات پڑھ لیا کرو: سُبحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمدِکَ نَشھَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنتَ نَستَغفِرُکَ وَنَتُوبُ اِلَیکَ۔ اس مجلس میں جو کچھ ہوا ہوگا یہ کلمات اس کیلئے کفارہ بن جائیں گے۔"
اے حراء! ٹھہر جا
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جبل حراءپر تھے کہ اچانک اس پر لرزہ طاری ہوا اور وہ حرکت کرنے لگا' حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: "اے حراءٹھہر جا! تجھ پر ایک نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )' صدیق رضی اللہ عنہ ہے اور (باقی) شہید ہیں' اس وقت پہاڑ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ' حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ' حضرت عمر رضی اللہ عنہ ' حضرت علی رضی اللہ عنہ ' حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ' حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔امام نووی "شرح مسلم" میں فرماتے ہیں "یہ حدیث حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ہے اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی خبر دی کہ یہ حضرات شہادت کا رتبہ حاصل کریں گے اور اس وقت پہاڑ پر موجود حضرات میں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علاوہ سب کی وفات شہادت کے ساتھ ہوئی۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نزدیک مقام زبیر رضی اللہ عنہ
ایک مرتبہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اس قدر بیمار ہوگئے کہ حج کیلئے بھی نہ جاسکے اور اپنا وصی بھی مقرر فرما دیا' اس بیماری کے دوران ایک قریشی آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا " آپ اپنا نائب مقرر فرمادیجئے" حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا " میں ایسا کرچکا ہوں" اس شخص نے پوچھا "آپ نے کس کو اپنا نائب مقرر کیا ہے؟" حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس بات کا جواب نہ دیا اور خاموشی اختیار فرمالی۔ اس کے بعد دوسرا شخص آیا اور اس نے بھی وہی گفتگو کی جو پہلے نے کی تھی' حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سے پہلے جیسی گفتگو فرمانے کے بعد کہا: " یہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ہیں" پھر فرمایا "خدا کی قسم! میرے علم کے مطابق یہ لوگوں میں سب سے بہتر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب ہیں۔
حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ اگرچہ کمسن تھے لیکن استقامت و جانثاری میں کسی سے پیچھے نہ تھے قبول اسلام کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ کسی نے مشہور کردیا کہ مشرکین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کرلیا ہے یہ سننا تھا کہ جذبہ عشق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بے خود ہوکر اسی وقت ننگی تلوار کھینچ کر مجمع کو چیرتے ہوئے آستانہ اقدس پر حاضر ہوئے' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو پوچھا "زبیر! یہ کیا ہے؟ عرض کی مجھے معلوم ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔" ننھے زبیر کا یہ جذبہ دیکھ کر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور ان کیلئے دعا خیر فرمائی۔
اہل سیر فرماتے ہیں کہ یہ پہلی تلوار تھی جو راہ فدویت وجانثاری میں ایک بچہ کے ہاتھ سے برہنہ ہوئی۔
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا خوف آخرت
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے پوچھا "آخر کیا وجہ ہے کہ میں نے آپ کو کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور فلاں فلاں صاحب کو احادیث بیان کرتے سنا ہے۔" یہ سن کر حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے فرمایا " میں اسلام لانے کے بعد کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا نہیں ہوا لیکن میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ جملہ فرماتے ہوئے سنا ہے" جس نے جان بوجھ کر کسی بات کو میری طرف منسوب کیا تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی دولت
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے تمول اور مالداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے تمام مال کا تخمینہ پانچ کروڑ دو لاکھ درہم (یا دینار) کیا گیا تھا لیکن اس قدر مال کے باوجود بائیس لاکھ کے مقروض تھے اس کی وجہ سے تھی کہ عموماً لوگ اپنا مال ان کے پاس جمع کرتے تھے لیکن یہ احتیاط کے خیال سے سب سے کہہ دیتے تھے کہ امانت نہیں بلکہ قرض کی حیثیت سے لیتا ہوں' اسی طرح بائیس لاکھ کے مقروض ہوگئے۔جب حضرت زبیر رضی اللہ عنہ جنگ جمل کیلئے تیار ہوئے تو انہوں نے اپنے صاحبزادہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا "جان پدر! مجھے سب سے زیادہ خیال اپنے قرضہ کا ہے' اس لیے میرا مال ومتاع بیچ کر سب سے پہلے قرضہ ادا کرنا اور جو باقی بچے اس میں سے ایک تہائی تمہارے بچوں کووصیت کرتا ہوں ہاں! اگر کفایت نہ کرے تو میرے مولیٰ کی طرف رجوع کرنا۔" حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا "آپ کا مولیٰ کون ہے؟" فرمایا "میرامولیٰ خدا ہے جس نے مصیبت کے وقت میری دستگیری کی ہے۔"
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حسب وصیت مختلف آدمیوں کے ہاتھ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی جاگیر بیچ کر قرضہ ادا کرنے کا انتظام کیا اور چار برس تک زمانہ حج میں اعلان کرتے رہے کہ زبیر رضی اللہ عنہ پر جس کا قرض ہو آکر مجھ سے وصول کرلے' غرض اس طرح سے قرض ادا کرنے کے بعد اتنی رقم باقی رہی کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی چار بیویوں میں سے ہر ایک کو بارہ بارہ لاکھ حصہ ملا' موصی لہ اور دوسرے وارث اس کے علاوہ تھے۔
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی فکر آخرت
حضرت عبداللہ بن زیبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ان آیات کا نزول ہوا۔ ترجمہ: "آپ کو بھی مرنا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے' پھر قیامت کے دن تم مقدمات اپنے رب کے سامنے پیش کروگے۔" (الزمر: 31,30)
توحضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا "یارسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم خاص خاص گناہوں کے ساتھ ہم پر وہ جھگڑے بھی بارہا پیش کیے جائیں گے جو دنیا میں ہمارے آپس میں تھے؟" حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ہاں! یہ مقدمات بار بار پیش کیے جاتے رہیں گے' یہاں تک کہ ہر حق والے کو اس کا حق مل جائے گا۔" یہ سن کر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا "اللہ کی قسم! پھر تو معاملہ بہت سخت ہے۔"
مجلس کا کفارہ
ایک مرتبہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا "یارسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں تو ہم زمانہ جاہلیت کی باتیں شروع کردیتے ہیں۔" حضور صلی اللہ علیہ وسلم اقدس نے ارشاد فرمایا: " جب تم ایسی مجلسوں میں بیٹھو جن میں تمہیں اپنے بارے میں ڈر ہو کہ تم سے غلط باتیں ہوگئی ہوں گی تو اٹھتے وقت یہ کلمات پڑھ لیا کرو: سُبحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمدِکَ نَشھَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنتَ نَستَغفِرُکَ وَنَتُوبُ اِلَیکَ۔ اس مجلس میں جو کچھ ہوا ہوگا یہ کلمات اس کیلئے کفارہ بن جائیں گے۔"
اے حراء! ٹھہر جا
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جبل حراءپر تھے کہ اچانک اس پر لرزہ طاری ہوا اور وہ حرکت کرنے لگا' حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: "اے حراءٹھہر جا! تجھ پر ایک نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )' صدیق رضی اللہ عنہ ہے اور (باقی) شہید ہیں' اس وقت پہاڑ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ' حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ' حضرت عمر رضی اللہ عنہ ' حضرت علی رضی اللہ عنہ ' حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ' حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔امام نووی "شرح مسلم" میں فرماتے ہیں "یہ حدیث حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ہے اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی خبر دی کہ یہ حضرات شہادت کا رتبہ حاصل کریں گے اور اس وقت پہاڑ پر موجود حضرات میں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علاوہ سب کی وفات شہادت کے ساتھ ہوئی۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نزدیک مقام زبیر رضی اللہ عنہ
ایک مرتبہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اس قدر بیمار ہوگئے کہ حج کیلئے بھی نہ جاسکے اور اپنا وصی بھی مقرر فرما دیا' اس بیماری کے دوران ایک قریشی آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا " آپ اپنا نائب مقرر فرمادیجئے" حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا " میں ایسا کرچکا ہوں" اس شخص نے پوچھا "آپ نے کس کو اپنا نائب مقرر کیا ہے؟" حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس بات کا جواب نہ دیا اور خاموشی اختیار فرمالی۔ اس کے بعد دوسرا شخص آیا اور اس نے بھی وہی گفتگو کی جو پہلے نے کی تھی' حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سے پہلے جیسی گفتگو فرمانے کے بعد کہا: " یہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ہیں" پھر فرمایا "خدا کی قسم! میرے علم کے مطابق یہ لوگوں میں سب سے بہتر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب ہیں۔
**Asif Rao**
**Sargodha**
0 comments:
Post a Comment