17 Oct 2012

قرآن اور اہل بیت

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر میرے بعد تم نے انہیں مضبوطی سے تھامے رکھا تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی رسی ہے اور میری عترت یعنی اہل بیت اور یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گی یہاں تک کہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گی پس دیکھو کہ تم میرے بعد ان سے کیا سلوک کرتے ہو؟‘‘ (ترمذی‘ نسائی‘ احمد)

8 Oct 2012

تم جس سے لڑوگے میں اس کے ساتھ حالت جنگ میں ہوں


حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی‘ حضرت فاطمہ‘ حضرت حسن اور حضرت حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا: تم جس سے لڑوگے میں اس کے ساتھ حالت جنگ میں ہوں اور جس سے تم صلح کرنے والے ہو میں بھی اس سے صلح کرنے والا ہوں۔‘‘ (ترمذی‘ ابن ماجہ)


5 Oct 2012

یااللہ! یہ میرے اہل (بیت) ہیں۔


حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی: ’’آپ 

فرمادیں آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے‘‘ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی‘ حضرت 

فاطمہ‘ حضرت حسن اور حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بلایا‘ پھر فرمایا: یااللہ! یہ میرے اہل 

(بیت) ہیں۔‘‘ (مسلم‘ ترمذی

4 Oct 2012

عشق رسول میں اونٹ کا بھوکا پیسا مر جانا


اونٹ اور عشق رسول ﷺ
ایک روز غضبا نے کہا یارسول اللہ ﷺ مجھے آپﷺ سے ایک درخواست کرنی ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا وہ کیا۔ عرض کی! آپ اللہ سے یہ بات منظور کرادیجئے کہ جنت میں آپ ﷺ کی سواری بنایا جائے۔ دوسری بات یہ کہ مجھے آپ ﷺ کے وصال سے پہلے موت آجائے تاکہ میری پشت پر کوئی دوسرا سواری نہ کرسکے۔ آپ ﷺ نے اسے یقین دلایا کہ تمہاری پشت پر کوئی سواری نہ کرے گا میرے سوا۔
جب حضور نبی کریم ﷺ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ ﷺ نے حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو بلا کر وصیت کی کہ غضبا پر میرے بعد کوئی سواری نہ کرے کیونکہ میں نے اس سے عہد کیا ہوا ہے۔ بیٹی! تم خود اس کی دیکھ بھال کرنا۔ آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد اونٹ نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور آپ ﷺ کے فراق میں گم سم رہنے لگا۔
ایک رات حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اس اونٹ کے نزدیک سے گزریں وہ اونٹ آپ رضی اللہ عنہا کو دیکھ کر یوں گویا ہوا ’’اے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی! جب سے میرے آقا و مولاﷺ کا وصال ہوا ہے میں نے گھاس کھانا اور پانی پینا چھوڑ دیا ہے۔ خدا کرے مجھے جلد موت آجائے کیونکہ مجھے اس زندگی سے حضورﷺ کی غلامی زیادہ پسند ہے۔ میں حضور ﷺ کی خدمت میں جارہا ہوں‘ اگر آپ کا کوئی پیغام ہوتو میں حضورﷺ کی خدمت میں پہنچادو۔ حضرت فاطمۃ الزہرا؍ء رضی اللہ عنہا اونٹ کی باتیں سن کر بہت مغموم ہوئیں اور رونے لگیں اور پیار سے اپنے ہاتھ اونٹ کے چہرے پر ملنے لگیں۔ کہتے ہیں کہ اسی حالت میں اونٹ نے جان دے دی۔ علی الصبح حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس کیلئے کفن تیار کرایا اور ایک گہرا سا گڑھا کھدوا کراسے دفن کردیا۔ سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اونٹ کے مرنے کے تین دن بعد اس گڑھے پر تشریف لائیں اور قبر اکھاڑنے کا حکم دیا مگر اس گڑھے میں اونٹ کا نام و نشان نہ تھا۔ گوشت پوست اور ہڈیاں سب کچھ غائب تھا۔ (معارج النبوت‘ حصہ سوم‘ صفحہ 201)

3 Oct 2012

اونٹ کا عشق مصطفیٰ میں درود پڑھنا


اونٹ کا عشق مصطفیٰ ﷺمیں درود پڑھنا

ایک بار حضور نبی اکرم ﷺ مومنین کو صدقہ کی تلقین فرمارہے تھے کہ ایک اعرابی آپہنچا جس کے پاس بڑا خوبصورت اونٹ تھا۔ بڑا خوش رفتار اور خوش خرام۔ اس نے اسے ایک جگہ کھڑا کردیا۔ سحری کے وقت جب حضور اکرم ﷺ گھر سے نکلے تو یہ اونٹ فصیح و بلیغ انداز میں پڑھ رہا تھا۔ 
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَازَیْنَ الْقِیَامۃِ‘ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاخَیْرَ الْبَشَرِ‘ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَافَاتِحَ الْجَنَانِ‘ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاشَافِعَ الْاُمَمِ‘ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاقَائِدَ الْمُؤمِنِیْنَ فِی الْقِیَامَۃِ اِلَی الْجَنَّۃِ‘ اَلسَّلَامُ عَلَیْک یَارَسُوْلَ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
حضور ﷺ نے یہ کلمات سنتے ہی اونٹ کی طرف توجہ فرمائی اور اس کا حال پوچھا تو وہ کہنے لگا۔ یارسول اللہ ﷺ میں اس اعرابی کے پاس تھا وہ مجھے ایک سنسان جنگل میں باندھ دیا کرتا۔ رات کے وقت جنگل کے جانور میرے اردگرد جمع ہوجاتے اور کہتے ’’اسے نہ چھیڑنا یہ حضور ﷺ کی سواری ہے‘‘ میں اس دن سے آپ ﷺ کے ہجر و فراق میں تھا۔ آج اللہ نے احسان فرمایا ہے کہ آپ ﷺ تک پہنچا ہوں۔ آپ ﷺ اونٹ کی یہ باتیں سن کر بہت خوش ہوئے اور اس کی طرف زیادہ التفات فرمانے لگے اور اس کانام ’’غضبا‘‘ رکھا۔



25 Sept 2012

اپنی ہتھیلی اپنی آنکھوں پر رکھ لی، اِس لئے کہ (رُوئے منوّر کی تابانیوں سے) کہیں میں بینائی سے ہی محروم نہ ہو جاؤں

’میں نے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَنوار و تجلیات کا مُشاہدہ کیا تو اپنی ہتھیلی اپنی آنکھوں پر رکھ لی، اِس لئے کہ (رُوئے منوّر کی تابانیوں سے) کہیں میں بینائی سے ہی محروم نہ ہو جاؤں۔‘‘
(1) نبهاني، جوهر البحار، 2 : 450
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالِ حسن کو بڑے ہی دِلپذیر انداز میں بیان کیا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
وَ أَحْسَنُ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَيْنِيْ
وَ أَجْمَلُ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءُ
خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِّنْ کُلِّ عَيْبٍ
کَأَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَ
مَا
تَشَاءُ
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حسین تر میری آنکھ نے کبھی دیکھا ہی نہیں اور نہ کبھی کسی ماں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جمیل تر کو جنم ہی دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق بے عیب (ہر نقص سے پاک) ہے، (یوں دِکھائی دیتا ہے) جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ربّ نے آپ کی خواہش کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت بنائی ہے۔)
حسان بن ثابت، ديوان : 21

19 Sept 2012

کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب تعالی کو احسن صورت میں دیکھا


حضرت  ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک میں دیکھتا ہو جو تم نہیں دیکھتے۔
۔ترمذی۔ابن ماجہ۔ مشکوۃ
حضرت عبدالرحمن بن عائش رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب تعالی  کو احسن صورت میں دیکھا۔ مشکوۃ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بلا شبہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو بار دیکھا ایک بار سر کی انکھ سے اور ایک بار دل کی انکھ سے۔طبرانی۔
دوسری طرف حضرت موسی علیہ السلام  نے سوال کیا ، اے میرے رب مجھے اپنا دیدار دکھا کہ میں دیکھوں۔
فرمایااگر یہ پہاڑ اپنی جگہ قایم رہا تو تم بھی مجھ کو دیکھ لو گے۔
ایسے موقع پر کیا خوب فرمایا  اعلیحضرت  نے
کس کو دیکھا یہ موسی سے پوچھے کوئی
آنکھ والوں کی ہمیت پہ لاکھوں سلام

30 Aug 2012

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ کے جس کسی راستے سے گزر جاتے تو لوگ اس راہ

۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إذا مرّ في طريق من طرق المدينة وجدوا منه رائحة الطيب، و قالوا : مرّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من هذا الطريق.
سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 67
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ کے جس کسی راستے سے گزر جاتے تو لوگ اس راہ میں ایسی پیاری مہک پاتے کہ پُکار اُٹھتے کہ ادھر سے اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا گزر ہوا 

19 Jul 2012

سید الکونین و الثقلین صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت و بہادری


سید الکونین و الثقلین صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت و بہادری

سب سے بہادر اور سب سے مضبوط دل والے انسان میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت مشکل مقامات پر اُس وقت ثابت قدمی کا مظاہرہ فرمایا جب بڑے بڑے بہادر میدان چھوڑ جاتے تھے،مگر آقا صلی اللہ علیہ وسلم ان خوفناک اور خون آشام مقامات پر ڈٹے رہے،آگے بڑھتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عزم اور یلغار میں ذرہ برابر کمی نہ آئی دنیا کا ہر بہادر کہیں نہ کہیں فرار یا کمزوری کا شکار ہوا مگر آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا تصور تک نہیں فرمایا۔ 
بے شک سچ فرمایا اللہ تعالٰی نے: انک لعلٰی خُلِقٍ عظیم ۔(القلم)


حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ حسین،سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ شجاع تھے ایک رات اہل مدینہ نے کوئی خوفناک آواز سنی لوگ اس آواز کی طرف دوڑے تو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز والی جگہ کی طرف سے واپس آتے ہوئے پایا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پہلے اس آواز کی طرف تشریف لے گئے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ننگی پشت پر تشریف فرما تھے اور گلے میں تلوار لٹک رہی تھی،اور فرمارہے تھے ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے،ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے،
(بخاری و مسلم )


حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ شجاع،دلیر،سخی اور زیادہ راضی ہونے والا کسی کو نہیں دیکھا،
(نسائی)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب بھی گھمسان کی لڑائی ہوتی اور میدان کارزار گرم ہو جاتا تھا تو ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ لیا کرتے تھے، اور ہم میں سے کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنسبت دشمن کے زیادہ قریب نہیں ہوتا تھا،بدر کے دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ لئے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب سے زیادہ دشمن کے قریب تھے،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن سب سے زیادہ سخت جنگ فرمائی، اور کہا جاتا تھا کہ بہادر وہی ھے جو جنگ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کے قریب ترین ہوتے تھے۔
(صحیح مسلم)

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب بھی دشمن سے ٹکراؤ ہوتا تھا ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم (ابنے لشکر میں سے) سب سے پہلے جنگ شروع فرماتے تھے۔


حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے قیس قبیلے کے ایک شخص نے کہا ،کیا آپ لوگ حنین کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو (میدان جنگ میں ) چھوڑ کر بھاگ گئے تھے؟ حضرت براء رضی اللہ عنہ نے فرمایا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرار اختیار نہیں فرمایا۔قبیلہ ہوازن کے لوگ اس دن ہم پر تیر برسا رہے تھے ، ہم نے جب ان پر حملہ کیا تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے تو ہم لوگ غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے تو انہوں نے ہمیں اچانک تیروں پر لے لیا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تیروں کی بوچھاڑ میں اپنے سفید خچر پر دیکھا اور ابوسفیان بن حارث رضی اللہ عنہ نے اس خچر کی لگام پکڑ رکھی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے،

انا النبی لاکذب انا بن عبدالمطلب
میں سچا نبی ہوں میں عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہوں

(بخاری و مسلم )

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکانہ پہلوان سے کشتی فرمائی اور اسے پچھاڑ دیا۔
(ابوداؤد)

حضرت زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رکانہ جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھاڑا تھا لوگوں میں سب سے طاقتور آدمی تھا،

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کسی بیان کی محتاج نہیں ہے۔میں نے یہاں اس کا مختصر تزکرہ کیا ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت اور دل کی مضبوطی سمجھنے کے لئے معراج کے واقعہ پر غور کیجئے آپ کو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مضبوط دل اور ناقابل شکست حواس کا اندازہ ہو جائے گا، خصوصًا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ رب العزت کے سامنے کھڑے ہونا اور نور ربانی کو برداشت کرنا کوئی معمولی بات نہیں

16 Jul 2012

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رُکانہ پہلوان سے کشتی


رُکانہ سے کشتی
یہ بڑا ہی زبردست ، دلیر اور نامی گرامی پہلوان تھا ، اس کا ریکارڈ تھا کہ اسے کبھی کسی نے نہیں گرایا تھا۔
یہ پہلوان اضم نام کے ایک جنگل میں رہتا تھا جہاں یہ بکریاں چراتا تھا اور بڑا ہی مالدار تھا۔
ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے اس کی طرف جا نکلے ۔
رکانہ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو آپ کے پاس آکر کہنے لگا ۔
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، تو وہی ہے جو ہمارے (خداﺅں) لات و عزیٰ کی توہین اور تحقیر کرتا ہے اور اپنے ایک خدا کی بڑائی بیان کرتا ہے؟ اگر میرا تجھ سے تعلق رحمی نہ ہوتا تو آج میں تجھے مار ڈالتا۔
اور کہنے لگا کہ میرے ساتھ کشتی کر، تو اپنے خدا کو پکار۔ میں اپنے خداﺅں لات و عزیٰ کو پکارتا ہوں۔
دیکھیں تمہارے خدا میں کتنی طاقت ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ رکانہ اگر کشتی ہی کرنا ہے تو چل میں تیار ہوں۔
رکانہ یہ جواب سن کر پہلے تو بڑا حیران ہوا اور پھر بڑے تکبر کے ساتھ مقابلے میں کھڑ ا ہوگیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی ہی جھپٹ میں اسے گرا لیا اور اس کے سینے پر بیٹھ گئے، رکانہ عمر میں پہلی مرتبہ گر کر بڑا شرمندہ ہوا اور حیران بھی ہوا‘ اور بولا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے سینے سے اٹھ کھڑے ہو ۔
میرے خداﺅں لات و عزیٰ نے میری طرف دھیان نہیں دیا ، ایک بار اور موقع دو اور آﺅ دوسری مرتبہ کشتی لڑیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم رکانہ کے سینے پر سے اٹھ گئے اور دوبارہ کشتی کے لئے رکانہ پہلوان بھی اٹھا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری مرتبہ بھی رکانہ کو پل بھر میں گرا لیا ، رکانہ نے کہا، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! معلوم ہوتا ہے آج میرے خدا مجھ سے ناراض ہیں اور تمہار خدا تمہاری مدد کررہا ہے۔
خیر ایک مرتبہ اور آﺅ، اس مرتبہ میرے خدا لات و عزیٰ میرے مدد ضرور کریں گے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے مرتبہ بھی کشتی کے لئے منظور کرلیا ۔
اور تیسرے مرتبہ بھی اسے پچھاڑ دیا۔
اب تو رکانہ پہلوان بڑا ہی شرمندہ ہوا اور کہنے لگا ۔
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! میری ان بکریوں میں سے جتنی چاہو بکریاں لے لو ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ رکانہ مجھے تمہارے مال کی ضرورت نہیں ، ہاں اگر تم مسلمان ہوجاﺅ تو جہنم کی آگ سے بچ جاﺅ گے۔
رکانہ نے جواب دیا ۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !میں مسلمان تو ہوجاﺅں مگر میرا نفس جھجکتا ہے کہ مدینہ اور گرد نواح کے لوگ کیا کہیں گے کہ اتنے بڑے پہلوان نے شکست کھائی اور مسلمان ہوگیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تو تیرا مال تجھی کو مبارک ہو۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے آئے۔
حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) آپ کی تلاش میں تھے اور یہ معلوم کر کے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وادی اضم کی طرف تشریف لے گئے ہیں بہت فکر مند تھے کہ اس طرف رکانہ پہلوان رہتا ہے ،
کہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء نہ دے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس تشریف لاتے دیکھ کر آ پ(رض) دونوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ۔
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ادھر اکیلے کیوں تشریف لے گئے تھے۔
جب کہ اس طرف رکانہ پہلوان رہتا ہے جو بڑا زور آور اور اسلام کا دشمن ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر مسکرائے اور فرمایا جب میرا اللہ ہر وقت میرے ساتھ ہے پھر مجھے کسی رکانہ کی کیا پروا ، لو اس رکانہ کی پہلوانی کا قصہ سنو۔
چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا قصہ سنایا ، حضرت ابوبکر صدیق(رض) اور حضرت عمر فاروق(رض) سن سن کر بہت خوش ہوئے اور عرض کیا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ تو ایسا پہلوان تھا کہ آج تک اسے کسی نے گرا ہی نہیں تھا۔
اسے گرانا اللہ کے رسولۖ ہی کا کام ہے۔
۪الخصائص الکبرئ، دلائل النبواۃ

13 Jul 2012

صحابہ اکرام آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقدس پسینہ اور موئے مبارک جمع کر لیتے تھ

 آرزوئے جاں نثارانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اظہارِ عشق کے انداز بھی مختلف ہوتے ہیں، خوشبوئے وفا کے پیرائے بھی جدا جدا ہوتے ہیں، کبھی کوئی صحابی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چادر مانگ لیتے ہیں کہ میں اس سے اپنا کفن بناؤں گا اور کوئی حصولِ برکت کے لئے جسمِ اطہر کے پسینے کو شیشی میں جمع کر لیتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ہاں قیلولہ فرماتے تو آپ رضی اللہ عنہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقدس پسینہ اور موئے مبارک جمع کر لیتے تھے اور اُنہیں ایک شیشی میں ڈال کر خوشبو میں ملا لیا کرتے تھے۔ حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنھم کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے وصیت کی :
أن يجعل في حنوطه من ذٰلک السُّکِ.
’’(اُن کے وصال کے بعد) وہ خوشبو ان کے کفن کو لگائی جائے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 5 : 2316، کتاب الاستيذان، رقم : 5925
2.
ابن ابي شيبه، المصنف، 2 : 461، رقم : 11036
ان کی اس آرزو کو بعد از وصال پورا کیا گیا۔ حضرت حمید سے روایت ہے :
لما توفي أنس بن مالک جعل في حنوطه مسک فيه من عرق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم .
’’جب حضرت انس رضی اللہ عنہ وصال کر گئے تو ان کی میت کے لئے اس خوشبو کو استعمال کیا گیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینے کی خوشبو تھی۔‘‘
1. بيهقي، السنن الکبريٰ، 3 : 406، رقم : 6500
2. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 249، رقم : 715
3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 7 : 25
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 21
5. شيباني، الاحآد والمثاني، 4 : 238، رقم : 2231

11 Jul 2012

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقدس جسم اتنا لطیف تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہ تھا۔

بے سایہ پیکرِ نور
کتب احادیث میں درج ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقدس جسم اتنا لطیف تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہ تھا۔
1۔ قاضی عیاض رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
کان لا ظلّ لشخصه في شمس و لا قمر لأنه کان نورًا.
’’سورج اور چاند (کی روشنی میں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کا سایہ نہ تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراپا نور تھے۔‘‘
1. قاضي عياض، الشفا، 1 : 522
2.
ابن جوزي، الوفا : 412
3.
خازن، لباب التأويل في معاني التنزيل، 3 : 321
4.
نسفي، المدارک، 3 : 135
5.
مقري، تلمساني، فتح المتعال في مدح النعال : 510
2۔ امام سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ الخصائص الکبريٰ میں روایت نقل فرماتے ہیں :
ان ظله کان لا يقع علي الأرض، وأنه کان نورًا فکان إذا مشي في الشمس أو القمر لا ينظر له ظلّ.
1. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 122
2.
ابن شاهين، غاية السؤل في سيرة الرسول، 1 : 297
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراپا نور تھے، پس جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سورج یا چاند کی روشنی میں چلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نظر نہ آتا۔‘‘
3۔ امام زرقانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
لم يکن لها ظل في شمس و لا قمر.
زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 524
’’شمس و قمر (کی روشنی) میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہ ہوتا۔‘‘

4 Jul 2012

’’میں نے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَنوار و تجلیات کا مُشاہدہ کیا تو اپنی ہتھیلی اپنی آنکھوں پر رکھ لی، اِس لئے کہ (رُوئے منوّر کی تابانیوں سے) کہیں میں بینائی سے ہی محروم نہ ہو جاؤں

1۔ اِمام زرقانی نے اپنی کتاب میں امام قرطبی رحمۃ اﷲ علیہ کا یہ ایمان افروز قول نقل کیا ہے :
لم يظهر لنا تمام حسنه صلي الله عليه وآله وسلم، لأنّه لو ظهر لنا تمام حسنه لما أطاقت أعيننا رؤيته صلي الله عليه وآله وسلم.
’’حضور کا حسن و جمال مکمل طور پر ہم پر ظاہر نہیں کیا گیا اور اگر آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمام حسن و جمال ہم پر ظاہر کر دیا جاتا تو ہماری آنکھیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوؤں کا نظارہ کرنے سے قاصر رہتیں۔‘‘
زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 241
2۔ قولِ مذکور کے حوالے سے اِمام نبہانی رحمۃ اﷲ علیہ حافظ اِبن حجر ہیتمی رحمۃ اﷲ علیہ کا قول نقل کرتے ہیں :
وَ ما أحسن قول بعضهم : لم يظهر لنا تمام حسنه صلي الله عليه وآله وسلم .
’’بعض ائمہ کا یہ کہنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمام حسن و جمال ہم (یعنی مخلوق) پر ظاہر نہیں کیا گیا نہایت ہی حسین و جمیل قول ہے۔‘‘
نبهاني، جواهر البحار، 2 : 101
1۔ نبی بے مثال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا ذکرِ جمیل حضرت عَمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اِن اَلفاظ میں کرتے ہیں :
وَ ما کان أحد أحبّ إليّ مِن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و لا أجل في عيني منه، و ما کنت أطيق أن أملأ عيني منه إجلالا له و لو سئلت أن أصفه ما أطقت لأني لم أکن أملأ عيني منه.
’’میرے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہ تھا اور نہ ہی میری نگاہوں میں کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حسین تر تھا، میں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس چہرہ کو اُس کے جلال و جمال کی وجہ سے جی بھر کر دیکھنے کی تاب نہ رکھتا تھا۔ اگر کوئی مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محامد و محاسن بیان کرنے کے لئے کہتا تو میں کیونکر ایسا کرسکتا تھا کیونکہ (حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ جہاں آرا کی چمک دمک کی وجہ سے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آنکھ بھر کر دیکھنا میرے لئے ممکن نہ تھا۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، 1 : 112، کتاب الإيمان، رقم : 121
2.
ابو عوانه، المسند، 1 : 70، 71، رقم : 200
3.
ابراهيم بن محمد الحسيني، البيان والتعريف، 1 : 157، رقم : 418
4.
ابن سعد، الطبقات الکبري، 4 : 259
5.
ابو نعيم، المسند المستخرج علي صحيح الامام مسلم، 1 : 190، رقم : 315
6.
قاضي عياض، الشفاء، 2 : 30
2۔ اِنسانی آنکھ کی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ شاعرِ رسول حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ جو اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں درُودوں کے گجرے اور سلاموں کی ڈالیاں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رُوئے منوّر دیکھ کر اپنی آنکھیں ہتھیلیوں سے ڈھانپ لیا کرتے تھے، وہ خود فرماتے ہیں :
لما نظرتُ إلي أنواره صلي الله عليه وآله وسلم وضعتُ کفي علي عيني خوفاً من ذهاب بصري.
’’میں نے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَنوار و تجلیات کا مُشاہدہ کیا تو اپنی ہتھیلی اپنی آنکھوں پر رکھ لی، اِس لئے کہ (رُوئے منوّر کی تابانیوں سے) کہیں میں بینائی سے ہی محروم نہ ہو جاؤں۔‘‘

22 Jun 2012

کسی آنکھ میں مشاہدۂ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاب نہ تھی

3۔ کسی آنکھ میں مشاہدۂ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاب نہ تھی
ربِ کائنات نے وہ آنکھ تخلیق ہی نہیں کی جو تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا مکمل طور پر مشاہدہ کر سکے۔ اَنوارِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس لئے پردوں میں رکھا گیا کہ اِنسانی آنکھ جمالِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاب ہی نہیں لا سکتی۔ اللہ ربّ العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حقیقی حسن و جمال مخلوق سے مخفی رکھا۔
1۔ اِمام زرقانی نے اپنی کتاب میں امام قرطبی رحمۃ اﷲ علیہ کا یہ ایمان افروز قول نقل کیا ہے :
لم يظهر لنا تمام حسنه صلي الله عليه وآله وسلم، لأنّه لو ظهر لنا تمام حسنه لما أطاقت أعيننا رؤيته صلي الله عليه وآله وسلم.
’’حضور کا حسن و جمال مکمل طور پر ہم پر ظاہر نہیں کیا گیا اور اگر آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمام حسن و جمال ہم پر ظاہر کر دیا جاتا تو ہماری آنکھیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوؤں کا نظارہ کرنے سے قاصر رہتیں۔‘‘
زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 241
2۔ قولِ مذکور کے حوالے سے اِمام نبہانی رحمۃ اﷲ علیہ حافظ اِبن حجر ہیتمی رحمۃ اﷲ علیہ کا قول نقل کرتے ہیں :
وَ ما أحسن قول بعضهم : لم يظهر لنا تمام حسنه صلي الله عليه وآله وسلم .
’’بعض ائمہ کا یہ کہنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمام حسن و جمال ہم (یعنی مخلوق) پر ظاہر نہیں کیا گیا نہایت ہی حسین و جمیل قول ہے۔‘‘
نبهاني، جواهر البحار، 2 : 101
1۔ نبی بے مثال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا ذکرِ جمیل حضرت عَمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اِن اَلفاظ میں کرتے ہیں :
وَ ما کان أحد أحبّ إليّ مِن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و لا أجل في عيني منه، و ما کنت أطيق أن أملأ عيني منه إجلالا له و لو سئلت أن أصفه ما أطقت لأني لم أکن أملأ عيني منه.
’’میرے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہ تھا اور نہ ہی میری نگاہوں میں کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حسین تر تھا، میں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس چہرہ کو اُس کے جلال و جمال کی وجہ سے جی بھر کر دیکھنے کی تاب نہ رکھتا تھا۔ اگر کوئی مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محامد و محاسن بیان کرنے کے لئے کہتا تو میں کیونکر ایسا کرسکتا تھا کیونکہ (حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ جہاں آرا کی چمک دمک کی وجہ سے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آنکھ بھر کر دیکھنا میرے لئے ممکن نہ تھا۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، 1 : 112، کتاب الإيمان، رقم : 121
2.
ابو عوانه، المسند، 1 : 70، 71، رقم : 200
3.
ابراهيم بن محمد الحسيني، البيان والتعريف، 1 : 157، رقم : 418
4.
ابن سعد، الطبقات الکبري، 4 : 259
5.
ابو نعيم، المسند المستخرج علي صحيح الامام مسلم، 1 : 190، رقم : 315
6.
قاضي عياض، الشفاء، 2 : 30

20 Jun 2012

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعداز وِلادت پہلی زیارت کے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ عنہا مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعداز وِلادت پہلی زیارت کے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں :
فأشفقتُ أن أوقظه من نومه لحسنه و جماله، فدنوتُ منه رويداً، فوضعتُ يدي علي صدره فتبسّم ضاحکاً، ففتح عينيه ينظر إليّ، فخرج من عينيه نورٌ حتي دخل خلال السماء.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے حسن و جمال کی وجہ سے میں نے جگانا مناسب نہ سمجھا پس میں آہستہ سے ان کے قریب ہو گئی۔ میں نے اپنا ہاتھ ان کے سینہ مبارک پر رکھا پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا کر ہنس پڑے اور آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھنے لگے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے ایک نور نکلا جو آسمان کی بلندیوں میں پھیل گیا۔‘‘
نبهانی، الانوار المحمديه : 29

13 Jun 2012

’میں نے کوئی زلفوں والا شخص سرخ جوڑا پہنے ہوئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ حسین نہیں دیکھا۔‘‘

۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
رأيتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في ليلة إضحيان، فجعلت أنظر إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و إلي القمر، و عليه حلة حمراء، فإذا هو عندي أحسن من القمر.
’’ایک رات چاند پورے جوبن پر تھا اور اِدھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرخ دھاری دار چادر میں ملبوس تھے۔ اُس رات کبھی میں رسول اللہا کے حسنِ طلعت پر نظر ڈالتا تھا اور کبھی چمکتے ہوئے چاند پر، پس میرے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاند سے کہیں زیادہ حسین لگ رہے تھے۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 118، ابواب الأدب، رقم : 2811
2.
ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 39، رقم : 10
3.
دارمي، السنن، 1 : 44، مقدمه، رقم : 57
4.
ابو يعلي، المسند، 13 : 464، رقم : 7477
5.
بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 196
6.
بيهقي، شعب الايمان، 2 : 150، رقم : 1417
7.
ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 167
2۔ حضرت براء بن عازب صفرماتے ہیں :
ما رأيتُ من ذي لمة أحسن في حلّة حمراء من رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم .
’’میں نے کوئی زلفوں والا شخص سرخ جوڑا پہنے ہوئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ حسین نہیں دیکھا۔‘‘
1.   مسلم، الصحيح، 4 : 1818، کتاب الفضائل، رقم : 2337
2.
ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 219، ابواب اللباس، رقم : 1724
3.
ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 598، ابواب المناقب، رقم : 3635
4.
ابو داؤد، السنن، 4 : 81، کتاب الترجل، رقم : 4183
5.
ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 31، رقم : 4
6.
دارمي، السنن، 1 : 33
7.
احمد بن حنبل، المسند، 4 : 300
8.
ابن عساکر، السيرة النبويه، 2 : 160
9.
نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 412، رقم : 9325
10.
نسائي، السنن، 8 : 183، کتاب الزينه، رقم : 5233
11.
ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 450
12.
ابن قدامه، المغني، 1 : 341
13.
شوکاني، نيل الاوطار، 1 : 151

29 May 2012

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند چند خصائص کبریٰ

چند خصائص کبریٰ
1۔ آپ ﷺ کا پیدائش کے اعتبار سے "اول الانبیاء" ہونا جیسا کے حدیث شریف میں آیا ہے کَانَ نَبِیَّا وَّ اٰدَمُ بَیۡنَ الرُّوۡحِ وَالۡجَسَدِیعنی حضور ﷺ اس وقت شرف نبوت سے سرفراز ہوچکے تھے جب کہ حضرت آدم علیہ السلام جسم و روح کی منزلوں سے گزر رہے تھے۔ (زرقانی علی المواہب جلد 5 ص 242)
2۔ آپ ﷺ کا خاتم النبیین ہونا۔
3-تمام مخلوق آپ ﷺ کے لیے پیدا ہوئی۔

4- آپ ﷺ کا مقدس نام عرش اور جنت کی پیشانیوں پر تحریر کیا گیا۔

5- تمام آسمانی کتابوں میں آپ ﷺ کی بشارت دی گئی۔

6-آ پ ﷺ کی ولادت کے وقت تمام بُت اوندھے ہو کر گر پڑے۔

7-آپ ﷺ کا شق صدر ہوا۔

8-آپ ﷺ کو معراج کا شرف عطا کیا گیا اور آپ کی سواری کے لیے براق پیدا کیا گیا۔

9-آپ ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب تبدیل و تحریف سے محفوظ کر دی گئی اور قیامت تک اس کی بقا ء و حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ کرم پر لے لی۔

10-آپ ﷺ کو آیتہ الکرسی عطا کی گئی ۔
11-آپ ﷺ کو تمام خزاءن الارض کی کنجیاں عطا کر دی گئی۔

12- آپ ﷺ کو جوامع الکلم کے معجزہ سے سرفراز کیا گیا۔

13- آپ ﷺ کو رسالت عامہ کے شرف سے ممتاز کیا گیا۔

14-آپ ﷺ کی تصدیق کے لیے معجزہ شق القمر ظہور میں آیا۔

15- آپ ﷺ کے لیے اموال غنیمت کو اللہ تعالیٰ نے حلال فرمایا۔

16- تمام روءے زمین کو اللہ تعالیٰ نے آ پ ﷺ کے لءے مسجد اوار پاکی حاصل کرنے (تیمم ) کا سامان بنادیا۔

17- آپ ﷺ کے بعض معجزات (قرآن مجید) قیامت تک باقی رہیں گے۔

18- اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو ان کا نام لے کر پکارا مگر آپ ﷺ کو اچھے اچھے القاب سے پکارا-
19- اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو" حبیب" کے معزز لقب سے سربلند فرمایا۔
20- اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی رسالت آپ کی حیات آپ کے شہر آپ کے زمانے کی قسم یاد فرمائی۔

21- آپ ﷺ تمام اولاد آدم کے سردار ہیں۔

22- آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے دربار میں "اکرام الخلق"ہیں

23-قبر میں آپ ﷺ کی ذات کے بارے میں منکر نکیر سوال کریں گے۔

24-آپ ﷺ کے بعد آپ ازواج مطہرات کے ساتھ نکاح کرنا حرام ٹھرایا گیا۔

25- ہر نمازی پر واجب کردیا گیا کہ بحالت نمازاَلسَّلامُ عَلَیۡکَ اٰیُّھَاالنَّبِیُّ کہہ کر آپ ﷺ کو سلام کرے۔

26- اگر کسی نمازی کو بحالت نماز حضور ﷺ پکاریں تو وہ نماز چھوڑ کر آپ ﷺ پر دوڑ پڑے یہ اس پر واجب ہے اور ایسا کرنے سے اس کی نماز بھی فاسد نہیں ہو گی۔

27- اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت کا آپ ﷺ کو مختار بنادیا ہے۔ آپ ﷺ جس کے لیے جو چاہیں حلال فرما دیں اور جس کے لیے جو چاہیں حرام فرما دیں۔

28- آپ ﷺ کے منبر اور قبر انور کے درمیان کی زمین جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔

29-صور پھونکنے پر سب سے پہلے آپ ﷺ اپنی قبر انور سے باہر تشریف لائے گئے۔

30- آپ ﷺ کو مقام محمود عطا کیا گیا۔

31- آپ ﷺ کو شفاعت کبریٰ کے اعزاز سے نوازا گیا۔

32- آپ ﷺ کو قیامت کے دن "لواء الحمد " عطا کیا گیا۔
33- آپ ﷺ سب سے پہلے جنت میں داخل ہو نگے۔

34-آپ ﷺ کو حوض کوثر عطا کیا گیا۔

35- قیامت کے دن ہر شخص کا نسب و تعلق منقطع ہو جاءے گا مگر آپ ﷺ کا نسب و تعلق منقطع نہیں ہو گا۔

36- آپ ﷺ کے سوا کسی نبی کے پاس حضرت اسرفیل علیہ السلام نہیں اترے۔

37- آپ ﷺ کے دربار میں بلند آواز سے بولنے والے کے اعمال صالحہ برباد کردیے جاتے ہیں۔
38- آپ ﷺ کو حجروں کے باہر سے پکارنا حرام کر دیا گیا ہے۔
39-آپ ﷺ کی ادنیٰ سی گستاخی کرنے والے کی سزا قتل ہے۔

40- آپ ﷺ کو تمام انبیاء علیھم السلام سے زیادہ معجزات عطا کئے گئے ۔


(فہرست زرقانی علی والمواہب جلد 5)

26 May 2012

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں درخت ہوں‘ فاطمہ اس کی ٹہنی ہے‘ علی اس کا شگوفہ اور حسن و حسین اس کا پھل ہیں


حضرت ابورافع رضی اللہ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حضور نبی کریم ﷺ کے مرض وصال میں اپنے دونوں بیٹوں کو آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں لائیں اور عرض گزار ہوئیں کہ یہ آپ ﷺ کے بیٹے ہیں انہیں کچھ وراثت میں عطا فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: حسن (رضی اللہ عنہ) کیلئے میری ثابت قدمی اور سرداری کی وراثت ہے اور حسین (رضی اللہ عنہٗ) کیلئے میری طاقت و سخاوت کی وراثت۔‘‘ (طبرانی)
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس تھے۔ حضرت ام ایمن آپ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا: حسن و حسین رضی اللہ عنہم اجمعین گم ہوگئے ہیں۔ راوی کہتے ہیں دن خوب نکلا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: چلو میرے بیٹوں کوتلاش کرو‘ راوی کہتا ہے ہر ایک نے اپنا اپنا راستہ لیا اور میں حضورنبی اکرمﷺ کے ساتھ چل پڑا‘ آپ ﷺ مسلسل چلتے رہے حتیٰ کہ پہاڑ کے دامن تک پہنچ گئے (دیکھا کہ) حسن اور حسین رضی اللہ عنہم اجمعین ایک دوسرے کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں اور ایک اژدھا اپنی دم پر کھڑا ہے اور اس کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں۔ آپ ﷺ اس کی طرف تیزی سے بڑھے تو وہ اژدھا حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف متوجہ ہوکر سکڑگیا پھر کھسک کر پتھروں میں چھپ گیا پھر آپ ﷺ حسنین کریمین رضی اللہ عنہم اجمعین کے پاس تشریف لائے اور دونوں کو الگ الگ کیا اور ان کے چہروں کو پونچھا اور فرمایا: میرے ماں باپ تم پر قربان تم اللہ کے ہاں کتنی عزت والے ہو۔ (طبرانی)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوا تو آپ ﷺ (گھٹنوں او دونوں ہاتھوں کے بل) چل رہے تھے اور آپ ﷺ کی پشت مبارک پر حسنین کریمین رضی اللہ عنہم اجمعین سوار تھے اور آپ ﷺ فرما رہے تھے تمہارا اونٹ کیا خوب ہے اور تم دونوں کیا خوب سوار ہو۔ (طبرانی)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً حدیث مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں درخت ہوں‘ فاطمہ اس کی ٹہنی ہے‘ علی اس کا شگوفہ اور حسن و حسین اس کا پھل ہیں اور اہل بیت سے محبت کرنے والے اس کے پتے ہیں‘ یہ سب جنت  میں ہوں گے‘ یہ حق ہے‘ یہ حق ہے (دیلمی
 
Copyright © 2010 Shan-e-Mustafa. All rights reserved.