31 Dec 2011

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی مذہبی رواداری

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی مذہبی رواداری
حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت بھی زیادہ تر پر آشوب اور پرشور رہا‘ ان کی خلافت کی مدت پانچ سال رہی‘ لڑائیوں اوربغاوتوں کی بدولت ان کو وہ سکون حاصل نہ ہوسکاجو حکمرانی کیلئے ضروری ہے مگر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ میں تربیت پائی تھی اس لیے زہد‘ تقویٰ‘ عبادت‘ تواضع‘ انفاق فی سبیل اللہ اور حسن سلوک میں جو اعلیٰ نمونے پیش کیے جاسکتے ہیں وہ ان کی زندگی میں ملتے ہیں‘ شجاعت میں کوئی معاصران کا حریف نہ تھا مگر وہ برابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر عمل فرماتے رہے کہ بہادر وہ نہیں ہے جو دشمن کو بچھاڑ دے بلکہ وہ ہے جو اپنے نفس کو زیر کرے۔ ان کی زندگی کا یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ ایک لڑائی میں ایک یہودی کو پچھاڑ کر اس کے سینے پر سوار ہوگئے اور اس کو ہلاک کرنا چاہتے تھے کہ اس نے ان کے منہ پر تھوک دیا تو یکایک اس کے سینے پر سے اتر کر علیحدہ ہوگئے‘ یہودی نے متعجب ہوکر اس طرح علیحدہ ہونے کی وجہ پوچھی تو بتایا کہ پہلے تمہیں اللہ کی خاطر ہلاک کرنا چاہتا تھا تم نے میرے منہ پر تھوکا تو اب میں تم کو ہلاک کرتا تو اپنے نفس کی خاطر کرتا جو صحیح نہیں ہوتا‘ یہ سن کر یہودی مسلمان ہوگیا۔
وہ اپنے حسن سلوک کی وجہ سے بے حد مقبول رہے‘ ان کے اسی وصف پر بھروسہ کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے اشاعت اسلام کاکام برابر لیتے رہے‘ فتح مکہ کے بعد حضرت خالدرضی اللہ تعالیٰ عنہ بنوخزیمہ میں تبلیغ اسلام کیلئے مامور ہوئے اس قبیلہ نے پہلے تو اسلام قبول کرلیا پھر منحرف ہوگیا‘ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے ان میں سے کچھ لوگوں کو قید اور کچھ کو قتل کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ ہوا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حسن معاملہ کی کارکردگی پر پورا اعتماد تھا‘ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلطی کی تلافی کیلئے ان کو بنی خزیمہ کے پاس بھیجا‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رواداری سے کام لیا‘ قیدیوں کو رہا کردیا اور مقتولین کے وارثوں کو خون بہا دیا۔ (فتح الباری ج8 ص 46)

14 Dec 2011

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا



ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہمدم سید المرسلین محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ، جگر گوشہ خلیفة المسلمین، شمع کاشانہء نبوت، آفتاب رسالت کی کرن، گلستان نبوت کی مہک، مہر ووفا اور صدق وصفا کی دلکش تصویر، خزینہ ئِ رسالت کا انمول ہیرا، جس کی شان میں قرآنی آیات نازل ہوئیں ۔ جس کو تعلیمات نبوی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر عبور حاصل تھا ۔ جسے اپنی زندگی میں لسان رسالت سے جنت کی بشارت ملی۔ جسے ازواج مطہرات میں ایک بلند اور قابل رشک مقام حاصل تھا۔ جو فقاہت، ثقاہت ، امانت ودیانت کے اعلیٰ معیار پر فائز تھیں۔

ولادت :
حضرت ام رومان کا پہلا نکاح عبداللہ ازدی سے ہوا تھا۔ عبداللہ کے انتقال کے بعد وہ ابوبکر کے عقد میں آئیں ۔ حضرت ابوبکر کے دو بچے تھے ۔ عبدالرحمن اور عائشہ ۔حضرت عائشہ کی تاریخ ولادت سے تاریخ وسیر کی تمام کتابیں خاموش ہیں ۔ ان کی ولادت کی صحیح تاریخ نبوت کے پانچویں سال کا آخری حصہ ہے۔

نام :
نام عائشہ تھا ۔ ان کا لقب صدیقہ تھا ۔ ام المومنین ان کا خطاب تھا ۔ نبی مکرم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنت الصدیق سے بھی خطاب فرمایا ہے ۔اور کبھی کبھار حمیرا سے بھی پکارتے تھے۔

کنیت :
عرب میں کنیت شرافت کا نشان ہے ۔ چونکہ حضرت عائشہ کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی۔ اس لیے کوئی کنیت بھی نہ تھی۔ ایک دفعہ آنحضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے حسرت کے ساتھ عرض کیا کہ اور عورتوں نے تو اپنی سابق اولادوں کے نام پر کنیت رکھ لی ہے ، میں اپنی کنیت کس کے نام پر رکھوں؟ فرمایا : اپنے بھانجے عبداللہ کے نام پر رکھ لو''۔
چنانچہ اسی دن سے ام عبداللہ کنیت قرار پائی۔

نکاح:
ہجرت سے ٣ برس پہلے سید المرسلین سے شادی ہوئی۔ ٩ برس کی عمر میں رخصتی ہوئی ۔ سیدہ عائشہ کے علاوہ کسی کنواری خاتون سے نبی کریم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے شادی نہیں کی ۔ ابھی ان کا بچپن ہی تھا کہ جبریل علیہ السلام نے ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر ان کی تصویر رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو دکھلائی اور بتایا کہ یہ آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی دنیا وآخرت میں رفیقہ ئِ حیات ہے۔ سیدہ عائشہ کا مہر بہت زیادہ نہ تھا صرف 500 درہم تھا ۔

فضائل وکمالات:
حضرت عمرو بن عاص نے ایک دفعہ رسول اقدس محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا : یا رسول اللہ ! آپ کو دنیا میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ فرمایا : ''عائشہ'' عرض کی مردوں میں کون ہے؟ فرمایا : اس کا باپ ۔ ایک دفعہ حضرت عمر نے اپنی بیٹی حضرت حفصہ ام المومنین کو سمجھاتے ہوئے کہا :بیٹی عائشہ کی ریس نہ کیا کرو ، رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے دل میں اس کی قدر ومنزلت بہت زیادہ ہے ۔
رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :
''مردوں میں بہت کامل گزرے لیکن عورتوں میں سے مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون کے سوا کوئی کامل نہ ہوئی اور عائشہ کو عورتوں پر اسی طرح فضیلت ہے جس طرح ثرید کو تمام کھانوں پر''۔
امام ذہبی لکھتے ہیں کہ سیدہ عائشہ پوری امت کی عورتوں سے زیادہ عالمہ ، فاضلہ ، فقیہہ تھیں ۔
عروہ بن زبیر کا قول ہے : میں نے حرام وحلال ، علم وشاعری اور طب میں ام المومنین عائشہ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں فخر نہیں کرتی بلکہ بطور واقعہ کے کہتی ہوں کہ اللہ نے دنیا میں ٩ باتیں ایسی صرف مجھ کو عطا کی ہیں جو میرے سوا کسی کو نہیں ملیں ۔
1۔ خواب میں فرشتے نے آنحضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے میری صورت پیش کی۔
2۔ جب میں سات برس کی تھی تو آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا ۔
3۔ جب میرا سن ٩ برس کا ہوا تو رخصتی ہوئی ۔
4۔ میرے سوا کوئی کنواری بیوی آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں نہ تھی ۔
5۔ آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم جب میرے بستر پر ہوتے تب بھی وحی آتی تھی ۔
6۔ میں آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبوب ترین بیوی تھی ۔
7۔ میری شان میں قرآن کی آیتیں اتریں ۔
8۔ میں نے جبریل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔
9۔ آپ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے میری گود میں سر رکھے ہوئے وفات پائی۔

حضرت عائشہ اور احادیث نبوی :
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کو علمی صداقت اور احادیث روایت کرنے کے حوالے سے دیانت وامانت میں امتیاز حاصل تھا ۔سیدہ عائشہ کا حافظہ بہت قوی تھا ۔ جس کی وجہ سے وہ حدیث نبوی کے حوالے سے صحابہ کرام کے لیے بڑا اہم مرجع بن چکی تھیں ۔ حضرت عائشہ حدیث حفظ کرنے اور فتویٰ دینے کے اعتبار سے صحابہ کرام سے بڑھ کر تھیں۔سیدہ عائشہ نے دو ہزار دو سو دس (2210) احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی ۔
دور نبوی کی کوئی خاتون ایسی نہیں جس نے سیدہ عائشہ سے زیادہ رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی ہو ۔
صدیقہ کائنات سے ایک سو چوہتر (174) احادیث ایسی مروی ہیں جو بخاری ومسلم میں ہیں ۔

وفات :
سن ٥٨ ہجری کے ماہ رمضان میں حضرت عائشہ بیمار ہوئیں اور انہوں نے وصیت کی کہ انہیں امہات المومنین اور رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے اہل بیت کے پہلو میں جنت البقیع میں دفن کیا جائے ۔ماہ رمضان کی 17تاریخ منگل کی رات ام المومنین عائشہ نے وفات پائی ۔ وفات کے وقت ان کی عمر 66 برس تھی۔ 18سال کی عمر میں بیوہ ہوئی تھیں ۔ حضرت ابوہریرہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔



12 Dec 2011

ُام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ


ُام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

نام ونسب
خدیجہ نام‘ ام ہند کنیت‘ طاہرہ لقب۔ سلسلہ نسب یہ ہے خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی‘ قصی پر پہنچ کر ان کا خاندان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے مل جاتا ہے۔ والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ تھا اور لوی بن غالب کے دوسرے بیٹے عامر کی اولاد تھی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد اپنے قبیلہ میں نہایت معزز شخص تھے مکہ آکر اقامت کی۔ عبدالدار ابن قصی کے‘ جوا ان کے ابن عم تھے‘ حلیف بنے اور یہیں فاطمہ بنت زائدہ سے شادی کی ہے جن کے بطن سے عام الفیل سے 15سال قبل حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئیں۔
سن شعور کو پہنچیں تو اپنے پاکیزہ اخلاق کی بناءپر طاہرہ کے لقب سے مشہور ہوئیں۔

تجارت
باپ اور شوہر کے مرجانے کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو سخت دقت واقع ہوئی ذریعہ معاش تجارت تھی جس کا کوئی نگران نہ تھا۔ تاہم اپنے اعزہ کو معاوضہ دیکر مال تجارت بھیجتی تھیں۔ ایک مرتبہ مال کی روانگی کا وقت آیا تو ابوطالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ تم کو خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جاکر ملنا چاہیے ان کا مال شام جائے گا۔ بہتر ہوگا کہ تم بھی ساتھ جاتے۔ میرے پاس روپیہ نہیں‘ ورنہ میں خود تمہارے لیے سرمایہ مہیا کردیتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہرت امین کے لقب سے تمام مکہ میں تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن معاملت‘ راست بازی‘ صدق ودیانت اور پاکیزہ اخلاقی کا عام چرچا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس گفتگو کی خبر ملی تو فوراً پیغام بھیجا کہ آپ میرا مال تجارت لیکر شام کو جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا اور مال تجارت لیکر میسرہ (غلام خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے ہمراہ بصرہ تشریف لے گئے‘ اس سال کا نفع سالہائے گزشتہ کے نفع سے دوگنا تھا۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی دولت و ثروت اور شریفانہ اخلاق نے تمام قریش کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا اور ہر شخص ان سے نکاح کا خواہاں تھا لیکن کارکنان قضاو قدر کی نظر انتخاب کسی اور پر پڑچکی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مال تجارت لیکر شام سے واپس آئے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شادی کا پیغام بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا اور شادی کی تاریخ مقرر ہوگئی۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 25سال کے تھے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر چالیس برس کی تھی۔ یہ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پندرہ سال قبل کا واقعہ ہے۔

اسلام
پندرہ برس کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر ہوئے اور فرائض نبوت کو ادا کرنا چاہا تو سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ پیغام سنایا‘ وہ سننے سے پہلے مومن تھیں کیونکہ ان سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدق دعویٰ کا کوئی شخص فیصلہ نہیں کرسکتا تھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء رئویائے صادقہ سے ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوکچھ خواب میں دیکھتے تھے سپیدہ صبح کی طرح نمودار ہوجاتا۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلوت گزین ہوگئے چنانچہ کھانے پینے کا سامان لیکر غار حرا تشریف لے جاتے اور وہاں تخث یعنی عبادت کرتے تھے جب سامان ہوختم ہوجاتا تو پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے پاس تشریف لاتے اور پھر واپس جاکر مراقبہ میں مصروف ہوتے‘ یہاں تک کہ ایک فرشتہ غیب نظر آیا کہ آپ سے کہہ رہا ہے پڑھ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں پڑھا لکھا نہیں‘ اس نے زور سے دبایا‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا اور کہا پڑھ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں پڑھا لکھا نہیں‘ پھر اس نے دوبارہ زور سے دبایا اور چھوڑ دیا اورکہا پڑھ‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا میں پڑھا لکھا نہیں‘ اسی طرح تیسری بار دبا کر کہا پڑھ اس خدا کا نام جس نے کائنات کو پیدا کیا‘ جس نے آدمی کو گوشت کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھ تیرا خدا کریم ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو جلال الٰہی سے لبریز تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے تمام واقعہ بیان کیا اور کہا ” مجھ کو ڈر ہے“ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا آپ متردد نہ ہوں خدا آپ کا ساتھ نہ چھوڑے گا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں‘ بے کسوں اور فقیروں کے معاون رہتے ہیں‘ مہمان نوازی اور مصائب میں حق کی حمایت کرتے ہیں‘ پھر وہ آپ کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو مذہباً نصرانی تھے عبرانی زبان جانتے تھے اور عبرانی زبان میں انجیل لکھا کرتے تھے اب وہ بوڑھے اور نابینا ہوگئے تھے‘ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے کہا کہ اپنے بھتیجے (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) کی باتیں سنو۔ بولے ابن الاخ تم نے کیا دیکھا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ کی کیفیت بیان کی تو کہا یہ وہی ناموس ہے جو موسیٰ ؑ پر اترا تھا‘ کاش مجھ میں اس وقت قوت ہوتی اور زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو شہر بدر کرے گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا ہاں۔ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا جب کسی پر نازل ہوتا ہے تو دنیا اس کی دشمن ہوجاتی ہے اور اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو تمہاری وزنی مدد کروں گا۔ اس کے بعد ورقہ کا بہت جلد انتقال ہوگیا اور وحی کچھ دنوں کیلئے رک گئی۔
اس وقت تک نماز پنجگانہ فرض نہ تھی‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نوافل پڑھا کرتے تھے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی آپ کے ساتھ نوافل میں شرکت کرتی تھیں۔ ابن سعد کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک عرصہ تک خفیہ طور پر نماز پڑھتے رہے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے صرف نبوت کی تصدیق ہی نہیں کی بلکہ آغاز اسلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی معین و مددگار ثابت ہوئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو چندسال تک کفار مکہ اذیت دیتے ہوئے ہچکچاتے تھے اس میں بڑی حد تک حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا اثر کام کررہا تھا اوپر گزر چکا ہے کہ آغازنبوت میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ مجھ کو ڈر ہے تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم متردد نہ ہوں خدا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑے گا۔ جب مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی اور تشفی دی۔

وفات
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نکاح کے بعد پچیس برس تک زندہ رہیں اور گیارہ رمضان ہجرت سے تین سال قبل انتقال فرمایا۔ اس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر 64 سال 6 ماہ کی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی قبر میں اترے اور اپنی سب سے بڑی غمگسار کو داعی اجل کے سپرد کیا۔ حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد ان ہی سے پیدا ہوئی۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وہ مقدس خاتون ہیں جنہوں نے نبوت سے پہلے بت پرستی چھوڑ دی تھی ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کو جو محبت تھی وہ اس سے ظاہر ہے کہ باوجود اس تمول اور اس دولت و ثروت کے جو ان کو حاصل تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت خود کرتی تھیں ۔ایک مرتبہ حضرت جبرائیل ؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہابرتن میں کچھ لارہی ہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو خدا کا اور میرا سلام پہنچا دیجئے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بے انتہا محبت تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی تک دوسری شادی نہیں کی ان کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا تو آپ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی سہیلیوں کے پاس گوشت بھجواتے تھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ گو میںنے خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نہیں دیکھا لیکن مجھ کو جس قدر ان پر رشک آتا تھا کسی اور پر نہیں آتا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ان کا ذکر کیا کرتے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭

7 Dec 2011

صحابہ رضی اللہ عنہ اور اہل بیت رضی اللہ عنہ کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم

حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ اگرچہ کمسن تھے لیکن استقامت و جانثاری میں کسی سے پیچھے نہ تھے قبول اسلام کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ کسی نے مشہور کردیا کہ مشرکین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کرلیا ہے یہ سننا تھا کہ جذبہ عشق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بے خود ہوکر اسی وقت ننگی تلوار کھینچ کر مجمع کو چیرتے ہوئے آستانہ اقدس پر حاضر ہوئے' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو پوچھا "زبیر! یہ کیا ہے؟ عرض کی مجھے معلوم ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔" ننھے زبیر کا یہ جذبہ دیکھ کر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور ان کیلئے دعا خیر فرمائی۔
اہل سیر فرماتے ہیں کہ یہ پہلی تلوار تھی جو راہ فدویت وجانثاری میں ایک بچہ کے ہاتھ سے برہنہ ہوئی۔

حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا خوف آخرت
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے پوچھا "آخر کیا وجہ ہے کہ میں نے آپ کو کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور فلاں فلاں صاحب کو احادیث بیان کرتے سنا ہے۔" یہ سن کر حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے فرمایا " میں اسلام لانے کے بعد کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا نہیں ہوا لیکن میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ جملہ فرماتے ہوئے سنا ہے" جس نے جان بوجھ کر کسی بات کو میری طرف منسوب کیا تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی دولت
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے تمول اور مالداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے تمام مال کا تخمینہ پانچ کروڑ دو لاکھ درہم (یا دینار) کیا گیا تھا لیکن اس قدر مال کے باوجود بائیس لاکھ کے مقروض تھے اس کی وجہ سے تھی کہ عموماً لوگ اپنا مال ان کے پاس جمع کرتے تھے لیکن یہ احتیاط کے خیال سے سب سے کہہ دیتے تھے کہ امانت نہیں بلکہ قرض کی حیثیت سے لیتا ہوں' اسی طرح بائیس لاکھ کے مقروض ہوگئے۔جب حضرت زبیر رضی اللہ عنہ جنگ جمل کیلئے تیار ہوئے تو انہوں نے اپنے صاحبزادہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا "جان پدر! مجھے سب سے زیادہ خیال اپنے قرضہ کا ہے' اس لیے میرا مال ومتاع بیچ کر سب سے پہلے قرضہ ادا کرنا اور جو باقی بچے اس میں سے ایک تہائی تمہارے بچوں کووصیت کرتا ہوں ہاں! اگر کفایت نہ کرے تو میرے مولیٰ کی طرف رجوع کرنا۔" حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا "آپ کا مولیٰ کون ہے؟" فرمایا "میرامولیٰ خدا ہے جس نے مصیبت کے وقت میری دستگیری کی ہے۔"
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حسب وصیت مختلف آدمیوں کے ہاتھ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی جاگیر بیچ کر قرضہ ادا کرنے کا انتظام کیا اور چار برس تک زمانہ حج میں اعلان کرتے رہے کہ زبیر رضی اللہ عنہ پر جس کا قرض ہو آکر مجھ سے وصول کرلے' غرض اس طرح سے قرض ادا کرنے کے بعد اتنی رقم باقی رہی کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی چار بیویوں میں سے ہر ایک کو بارہ بارہ لاکھ حصہ ملا' موصی لہ اور دوسرے وارث اس کے علاوہ تھے۔

حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی فکر آخرت
حضرت عبداللہ بن زیبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ان آیات کا نزول ہوا۔ ترجمہ: "آپ کو بھی مرنا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے' پھر قیامت کے دن تم مقدمات اپنے رب کے سامنے پیش کروگے۔" (الزمر: 31,30)
توحضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا "یارسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم خاص خاص گناہوں کے ساتھ ہم پر وہ جھگڑے بھی بارہا پیش کیے جائیں گے جو دنیا میں ہمارے آپس میں تھے؟" حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ہاں! یہ مقدمات بار بار پیش کیے جاتے رہیں گے' یہاں تک کہ ہر حق والے کو اس کا حق مل جائے گا۔" یہ سن کر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا "اللہ کی قسم! پھر تو معاملہ بہت سخت ہے۔"

مجلس کا کفارہ
ایک مرتبہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا "یارسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں تو ہم زمانہ جاہلیت کی باتیں شروع کردیتے ہیں۔" حضور صلی اللہ علیہ وسلم اقدس نے ارشاد فرمایا: " جب تم ایسی مجلسوں میں بیٹھو جن میں تمہیں اپنے بارے میں ڈر ہو کہ تم سے غلط باتیں ہوگئی ہوں گی تو اٹھتے وقت یہ کلمات پڑھ لیا کرو: سُبحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمدِکَ نَشھَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنتَ نَستَغفِرُکَ وَنَتُوبُ اِلَیکَ۔ اس مجلس میں جو کچھ ہوا ہوگا یہ کلمات اس کیلئے کفارہ بن جائیں گے۔"

اے حراء! ٹھہر جا
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جبل حراءپر تھے کہ اچانک اس پر لرزہ طاری ہوا اور وہ حرکت کرنے لگا' حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: "اے حراءٹھہر جا! تجھ پر ایک نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )' صدیق رضی اللہ عنہ ہے اور (باقی) شہید ہیں' اس وقت پہاڑ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ' حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ' حضرت عمر رضی اللہ عنہ ' حضرت علی رضی اللہ عنہ ' حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ' حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔امام نووی "شرح مسلم" میں فرماتے ہیں "یہ حدیث حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ہے اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی خبر دی کہ یہ حضرات شہادت کا رتبہ حاصل کریں گے اور اس وقت پہاڑ پر موجود حضرات میں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علاوہ سب کی وفات شہادت کے ساتھ ہوئی۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نزدیک مقام زبیر رضی اللہ عنہ
ایک مرتبہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اس قدر بیمار ہوگئے کہ حج کیلئے بھی نہ جاسکے اور اپنا وصی بھی مقرر فرما دیا' اس بیماری کے دوران ایک قریشی آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا " آپ اپنا نائب مقرر فرمادیجئے" حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا " میں ایسا کرچکا ہوں" اس شخص نے پوچھا "آپ نے کس کو اپنا نائب مقرر کیا ہے؟" حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس بات کا جواب نہ دیا اور خاموشی اختیار فرمالی۔ اس کے بعد دوسرا شخص آیا اور اس نے بھی وہی گفتگو کی جو پہلے نے کی تھی' حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سے پہلے جیسی گفتگو فرمانے کے بعد کہا: " یہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ہیں" پھر فرمایا "خدا کی قسم! میرے علم کے مطابق یہ لوگوں میں سب سے بہتر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب ہیں۔
--
**Asif Rao**

**Sargodha**
 
Copyright © 2010 Shan-e-Mustafa. All rights reserved.