29 Feb 2012

صحابی کی زبان کے نیچے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بال رکھ کر دفنایا گیا

ثابت البنانی بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
هذه شعرة من شعر رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فضعها تحت لساني. قال : فوضعتها تحت لسانه، فدفن و هي تحت لسانه.
عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 1 : 127
’’یہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بال مبارک ہے، پس تم اسے میری زبان کے نیچے رکھ دینا۔ وہ کہتے ہیں : میں نے وہ بال آپ رضی اللہ عنہ کی زبان کے نیچے رکھ دیا اور انہیں اس حال میں دفنایا گیا کہ وہ بال ان کی زبان کے نیچے تھا۔‘‘
موئے مبارک کی برکت سے شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ کی صحت یابی
موئے مبارک کے کرامات و برکات کے حوالے سے ائمہ و صالحین کے بعض ذاتی مشاہدات کا ذکر بھی کتب سیر و تواریخ میںملتا ہے۔ ائمہ متاخرین میں سے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ جیسی عظیم علمی و فکری شخصیت سے کون متعارف نہ ہوگا۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین‘‘ اور ’’انفاس العارفین‘‘ میں اپنے والد گرامی حضرت شاہ عبدالرحیم دہلوی قدس سرہ العزیز کی بیماری کا واقعہ ان کی زبانی خود بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک مرتبہ اتنا سخت بخار ہوا کہ زندہ بچنے کی امید نہ رہی۔ اسی دوران مجھ پر غنودگی سی طاری ہوئی، اندریں حال میں نے حضرت شیخ عبدالعزیز کو خواب میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بیٹے عبدالرحیم (مبارک ہو)! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہاری عیادت کے لئے تشریف لانے والے ہیں اور سمت کا تعین کرتے ہوئے فرمایا کہ جس طرف تمہاری پائنتی ہے اس طرف سے آپ تشریف لائیں گے۔ سو تمہارے پاؤں اس رخ پر نہیں ہونے چاہئیں۔ مجھے غنودگی کے عالم سے کچھ افاقہ ہوا مگر بولنے کی طاقت نہ تھی چنانچہ حاضرین کو اشارے سے سمجھایا کہ میری چار پائی کا رخ تبدیل کردیں بس اسی لمحے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’کيف حالک يا بنی؟
بیٹے عبدالرحیم! تمہارا کیا حال ہے؟‘‘
بس پھر کیا تھا آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شیریں گفتار اور رس بھرے بول نے میری دنیا ہی بدل دی جس سے مجھ پہ وجد و بکاء اور اضطراب کی عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے سرہانے تشریف فرما تھے اور مجھے اپنی آغوش میں لئے ہوئے تھے۔ فرطِ جذبات سے مجھ پر گریہ و زاری کی وہ کیفیت طاری ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قمیص مبارک میرے آنسوؤں سے تر ہو گیا اور آہستہ آہستہ اس رقت و گداز سے مجھے قرار و سکون نصیب ہوا۔ اچانک میرے دل میں خیال گزرا کہ میں تو مدت سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک کا آرزو مند ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کتنا بڑا کرم ہوگا اگر اس وقت میری یہ آرزو پوری فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے اس خیال سے آگاہ ہوئے اور اپنی ریش مبارک پر ہاتھ پھیر کر دو موئے مبارک میرے ہاتھ میں تھما دیئے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ میں تو شاید خواب دیکھ رہا ہوں جب بیدار ہوں گا تو خدا جانے یہ بال محفوظ رہیں یا نہ رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس خیال کو بھی جان گئے اور فرمایا کہ یہ عالم بیداری میں بھی تیرے پاس محفوظ رہیں گے۔ بس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے صحتِ کلی اور درازئ عمر کی بشارت عطا فرمائی۔ مجھے اسی لمحے افاقہ ہوا اور میں نے چراغ منگوا کر دیکھا تو وہ موئے مبارک میرے ہاتھ سے غائب تھے، اس پر مجھے سخت اندیشہ اور پریشانی لاحق ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے آگاہ فرمایا کہ بیٹے میں نے دونوں بالوں کو تیرے تکیہ کے نیچے رکھا ہے یہ وہاں سے تجھے ملیں گے۔ جب مجھے افاقہ ہوا تو میں اٹھا اور انہیں اسی جگہ پایا۔ میں نے تعظیم و اکرام کے ساتھ انہیں ایک جگہ محفوظ کر لیا۔ اس کے بعد بخار ختم ہوا، تمام کمزوری دور ہو گئی اور مجھے صحتِ کلی نصیب ہوئی۔
ان موئے مبارک کے خواص میں سے تین کا ذکر کیا جاتاہے۔
1۔ یہ آپس میں جڑے ہوئے رہتے تھے جوں ہی درود شریف پڑھا جاتا یہ دونوں الگ الگ سیدھے کھڑے ہوجاتے تھے اور درود شریف ختم ہوتے ہی پھر اصلی حالت اختیار کرلیتے تھے۔

28 Feb 2012

صحابہ اکرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک زمین پر نہ گرنے دیتے

۔ حضرت عکرمہ بن خالد رضی اللہ عنہ نے روایت کرتے ہوئے فرمایا :
عندی من شعر رسول اﷲ مخضوب مصبوغ فی سکة.
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 437
’’ہمارے پاس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال ہیں جو رنگین اور خوشبودار ہیں۔‘‘
موئے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حصول کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پروانہ وار بڑھتے
9۔ اسی طرح ایک اور روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں :
لقد رأيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، والحَلّاق يَحلِقه وأطاف به أصحابه، فما يريدون أن تقع شعرة إلا في يد رجل.
مسلم، الصحيح، 4 : 1812، کتاب الفضائل، رقم : 2325
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 133، 137، رقم : 12386 - 12423
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 430
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 2 : 181
بيهقي، السنن الکبریٰ، 7 : 68، رقم : 13189
ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 189
عبد بن حميد، المسند، 1 : 380، رقم : 1273
ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 188
’’میں نے دیکھا کہ حجام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر مبارک مونڈ رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد گھوم رہے تھے اور چاہتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی بال بھی زمین پر گرنے کی بجائے ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پسِ مرگ بھی موئے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حصولِ برکت کے خواہاں تھے

27 Feb 2012

موئے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے بیمار شفایاب ہوئے

موئے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے بیمار شفایاب ہوئے
۔ حضرت عثمان بن عبداللہ بن موہب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أرسلَنی أهلی إلی أم سلمة بقدح من ماء، و قبض إسرائيل ثلاث أصابع من فضة فيه شعر من شعر النبي صلي الله عليه وآله وسلم، و کان إذا أصاب الإنسانَ عين أو شئ بعث إليها مِخْضَبَة. فاطلعت في الجُلْجُل فرأيتُ شعراتٍ حمرًا.
بخاري، الصحيح، 5 : 2210، کتاب اللباس، رقم : 5557
ابن راهويه، المسند، 1 : 173، رقم : 145
ابن کثير، البداية والنهاية، 6 : 21
شوکاني، نيل الاوطار، 1 : 69
مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 5 : 510
’’مجھے میرے گھر والوں نے حضرت ام سلمۃ رضی اﷲ عنہا کے پاس پانی کا (ایک چاندی کا) پیالہ دے کر بھیجا۔ (اسرائیل نے تین انگلیاں پکڑ کر اس پیالے کی طرح بنائیں) جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موئے مبارک تھا، اور جب کبھی کسی کو نظر لگ جاتی یا کچھ ہو جاتا تو وہ حضرت ام سلمۃ رضی اﷲ عنہا کے پاس (پانی کا) برتن بھیج دیتا۔ پس میں نے برتن میں جھانک کر دیکھا تو میں نے چند سرخ بال دیکھے۔‘‘
6۔ علامہ بدر الدین عینیرحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
’’حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک چاندی کی بوتل میں تھے۔ جب لوگ بیمار ہوتے تو وہ ان بالوں سے برکت حاصل کرتے اور ان کی برکت سے شفا پاتے۔ اگر کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی بیمار ہوجاتا تو وہ اپنی بیوی کو حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس برتن دیکر بھیجتے جس میں پانی ہوتا اور وہ اس پانی میں سے بال مبارک گزار دیتیں اور بیمار وہ پانی پی کر شفایاب ہوجاتا اور اس کے بعد موئے مبارک اس برتن میں رکھ دیا جاتا۔
عينی، عمدةالقاری، 22 : 49
۔ حضرت یحییٰ بن عباد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :
کان لنا جلجل من ذهب فکان الناس يغسلونه، و فيه شعر رسول اﷲ، قال : فتخرج منه شعرات قد غيرت بالحناء والکتم.
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 437
’’ہمارا ایک سونے کا برتن (جلجل) تھا جس کو لوگ دھوتے تھے، اس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال تھے۔ چند بال نکالے جاتے تھے جن کا رنگ حنا اور نیل سے بدل دیا گیا تھا۔‘‘

25 Feb 2012

صحابہ اکرام کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک سے محبت

صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برکات کو حاصل کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے تھے۔ جس چیز کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت ہو جاتی اسے وہ دنیا و مافیہا سے عزیز تر جانتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے عمل سے صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کے اندر یہ شعور بیدار کر دیا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار و تبرکات کو محفوظ رکھتے اور ان کی انتہائی تعظیم و تکریم کرتے اور ان سے برکت حاصل کرتے۔
1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حج کے موقع پر قربانی دینے سے فارغ ہوئے تو :
ناول الحالق شِقَّه الأيمن فحلقه، ثم دعا أبا طلحة الأنصاري فأعطاه إياه، ثم ناوله الشِّقَّ الأيسر، فقال : احلق. فحلقه، فأعطاه أبا طلحة، فقال : اقسمه بين الناس.
مسلم، الصحيح، 2 : 948، کتاب الحج، رقم : 1305
ابن حبان، الصحيح، 9 : 191، رقم : 3879
حاکم، المستدرک، 1 : 647، رقم : 1743
ترمذي، الجامع الصحيح، 3 : 255، ابواب الحج، رقم : 912
نسائي، السنن الکبری، 2 : 449، رقم : 4116
ابوداؤد، السنن، 2 : 203، کتاب المناسک، رقم : 1981
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 111، 214
حميدي، المسند، 2 : 512، رقم : 1220
بيهقي، السنن الکبري، 5 : 134، رقم : 9363
ابن خزيمه، الصحيح، 4 : 299، رقم : 2928
بغوي، شرح السنة، 7 : 206، رقم : 1962
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر انور کا دایاں حصہ حجام کے سامنے کر دیا، اس نے بال مبارک مونڈ دیئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کو وہ بال عطا کئے، اِس کے بعد حجام کے سامنے بائیں جانب کی اور فرمایا : مونڈ دو، اس نے ادھر کے بال بھی مونڈ دیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ بال بھی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو عطا کئے اور فرمایا : یہ بال لوگوں میں بانٹ دو۔‘‘
2۔ ابن سیرین رحمۃ اﷲ علیہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
أن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم لما حلق رأسه، کان أبو طلحة أولَ من أخذَ من شعره.
بخاري، الصحيح، 1 : 75، کتاب الوضوء، رقم : 169
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر مبارک منڈوایا تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ ہی پہلے وہ شخص تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک لیے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم موئے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا و مافیہا سے عزیز جانتے
3۔ ابن سیرین رحمۃ اﷲ علیہ بیان کرتے ہیں :
قلت لعبيدة : عندنا من شعر النبي صلي الله عليه وآله وسلم، أصبناه من قِبَل أنس، أو من قِبَل أهل أنس، فقال : لان تکون عندي شعرة منه أحب إليّ من الدنيا وما فيها.
ُبخاري، الصحيح، 1 : 75، کتاب الوضوء، رقم : 168
بيهقي، السنن الکبری، 7 : 67، رقم : 13188
بيهقي، شعب الايمان، 2 : 201
’’میں نے عبیدہ سے کہا کہ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ موئے مبارک ہیں جن کو ہم نے انس رضی اللہ عنہ یا ان کے گھر والوں سے حاصل کیا ہے۔ عبیدہ نے کہا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان بالوں میں سے ایک بال بھی میرے پاس ہوتا تو وہ مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہوتا۔‘‘
حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں : ’’اس حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک سے برکت حاصل کرنا ثابت ہے۔‘‘
عسقلانی، فتح الباری، 1 : 274
ایک اور روایت میں حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
لأن يکون عندي منه شعرة أحب إلي من کل صفراء و بيضاء اصبحت علي وجه الأرض.
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 256، رقم : 13710
بيهقي، السنن الکبري، 2 : 427، رقم : 4032
ذهبي، سير أعلام النبلاء، 4 : 42
ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 506
ابن سعد، الطبقات الکبري، 6 : 95
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بالوں میں سے ایک بال کا میرے پاس ہونا مجھے روئے زمین کے تمام سونے اور چاندی کے حصول سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘

24 Feb 2012

آُپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناخن مبارک سے حصولِ برکت

ناخن مبارک سے حصولِ برکت
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ منیٰ میں حصرت عبداﷲ بن زید کو اپنے موئے مبارک اور ناخن کٹوا کر عطا فرمائے جن کو انہوں نے بطور تبرک سنبھال کر رکھا۔ ان کے صاحبزادے حضرت محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں :
فحلق رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم رأسه في ثوبه فأعطاه فقسم منه علي رجال و قلم أظفاره فأعطاه صاحبه.
احمد بن حنبل، المسند، 4 : 42
ابن خزيمه، الصحيح، 4 : 300، رقم : 2931
حاکم، المستدرک، 1 : 648، رقم : 1744
بيهقي، السنن الکبری، 1 : 25، رقم : 91
بيهقي، شعب الايمان، 2 : 202، رقم : 1535
هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 19 (اس کے تمام راوي صحيح ہيں)
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ 3 : 536
شوکاني، نيل الاوطار، 1 : 69
مقدسي، الأحاديث المختارة، 9 : 384، رقم : 353
اس روایت کی اسناد صحیح ہیں۔ اور اس کے رجال مشہور و ثقہ ہیں۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر میں اپنا سر اقدس منڈوایا اور بال انہیں عطا کر دیئے جس میں سے کچھ انہوں نے لوگوں میں تقسیم کر دیے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناخن مبارک کٹوائے اور وہ انہیں اور ان کے ساتھی کو عطا کر دیئے۔‘‘

23 Feb 2012

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک اگر کسی سست رفتار کمزور جانور کو لگ جاتے تو وہ تیز رفتار ہو جاتا

۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک اگر کسی سست رفتار کمزور جانور کو لگ جاتے تو وہ تیز رفتار ہو جاتا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آ کر اپنی اُونٹنی کی سست رفتاری کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پائے مبارک سے اُسے ٹھوکر لگائی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
والذی نفسی بيده لقد رأيتها تسبق القائد.
ابو عوانه، المسند، 3 : 45، رقم : 4145
بيهقي، السنن الکبریٰ، 7 : 235، رقم : 14132
حاکم، المستدرک، 2 : 193، رقم : 2729
قسم اُس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اس کے بعد وہ ایسی تیز ہو گئی کہ کسی کو آگے بڑھنے نہ دیتی۔‘‘

۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے اُونٹ کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ ذات الرقاع کے موقع پر اپنے مبارک قدموں سے ٹھوکر لگائی تھی، جس کی برکت سے وہ تیز رفتار ہو گیا تھا۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے :
فضربه برجله و دعا له، فسار سيراً لم يسرمثله.
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 299
مسلم، الصحيح، 3 : 1221، کتاب المساقاة، رقم : 715
نسائی، السنن، 7 : 297، کتاب البيوع، رقم : 4637
ابن حبان، 14 : 450، رقم : 6519
بيهقی، السنن الکبریٰ، 5 : 337، رقم : 10617
’’تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پائے مبارک سے اُسے ٹھوکر لگائی اور ساتھ ہی دُعا فرمائی، پس وہ اتنا تیز رفتار ہوا کہ پہلے کبھی نہ تھا۔‘‘
جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ اُن سے دریافت کیا کہ اب تیرے اُونٹ کا کیا حال ہے تو اُنہوں نے عرض کیا :
بخير قد أصابته برکتک.
بخاري، الصحيح، 3 : 1083، کتاب الجهاد والسير، رقم : 2805
مسلم، الصحيح، 3 : 1221، کتاب المساقاة، رقم : 715
ابو عوانه، المسند، 3 : 249، رقم : 4843
’’بالکل ٹھیک ہے، اُسے آپ صلی اﷲ علیک وسلم کی برکت حاصل ہو گئی ہے۔‘‘

22 Feb 2012

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمین شریفین کی برکات

قدمین شریفین کی برکات
جس پتھر پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنا قدمِ مبارک رکھ کر تعمیر کعبہ کرتے رہے وہ آج بھی صحنِ کعبہ میں مقامِ ابراہیم کے اندر محفوظ ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے لگنے سے وہ پتھر گداز ہوا اور اُن قدموں کے نقوش اُس پر ثبت ہو گئے۔ اللہ ربُ العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدموں کو بھی یہ معجزہ عطا فرمایا کہ اُن کی وجہ سے پتھر نرم ہو جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدومِ مبارک کے نشان بعض پتھروں پر آج تک محفوظ ہیں۔
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أنّ النبی صلی الله عليه وآله وسلم کان إذا مشي علي الصخر غاصت قدماه فيه و أثرت.
زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 482
سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 27، رقم : 9
’’ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پتھروں پر چلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک کے نیچے وہ نرم ہو جاتے اور قدم مبارک کے نشان اُن پر لگ جاتے۔‘‘
2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین بڑے ہی بابرکت اور منبعِ فیوضات و برکات تھے۔ حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ عرفہ سے تین میل دور مقام ذی المجاز میں تھے کہ اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پانی طلب کرتے ہوئے کہا :
عطشتُ و ليس عندي ماءٌ، فنزل النبي صلي الله عليه وآله وسلم و ضرب بقدمه الأرض، فخرج الماء، فقال : اشرب.
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 152، 153
ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 76
زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 170
خفاجي، نسيم الرياض، 3 : 507
’’مجھے پیاس لگی ہے اور اس وقت میرے پاس پانی نہیں، پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی سواری سے اُترے اور اپنا پاؤں مبارک زمین پر مارا تو زمین سے پانی نکلنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (اے چچا جان!) پی لیں۔‘‘
جب اُنہوں نے پانی پی لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ اپنا قدمِ مبارک اُسی جگہ رکھا تو وہ جگہ باہم مل گئی اور پانی کا اِخراج بند ہو گیا۔
3۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ ایک دفعہ سخت بیمار ہو گئے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی عیادت فرمائی اور اپنے مبارک پاؤں سے ٹھوکر ماری جس سے وہ مکمل صحت یاب ہو گئے۔ روایت کے الفاظ ہیں :
فضربنی برجله، و قال : ’’اللهم اشفه، اللهم عافه‘‘ فما اشتکيت وجعي ذالک بعد.
نسائي، السنن الکبریٰ، 6 : 261، رقم : 10897
ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 560، ابواب الدعوات، رقم : 3564
احمد بن حنبل، المسند، 1 : 83، 107
طيالسي، المسند، 1 : 21، رقم : 143
ابويعلي، المسند، 1 : 328، رقم : 409
ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 7 : 357
’’پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا مبارک پاؤں مجھے مارا اور دعا فرمائی : اے اﷲ! اسے شفا دے اور صحت عطا کر۔ (اس کی برکت سے مجھے اسی وقت شفا ہو گئی اور) اس کے بعد میں کبھی بھی اس بیماری میں مبتلا نہ ہوا۔‘‘

16 Feb 2012

میں ہی پہلا شفاعت کرنے والا ہوں

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
میں ہی پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور میری ہی شفاعت سب سے پہلے قبول کی جائے گی فخریہ نہیں کہتا۔ ترمذی۔
 
Copyright © 2010 Shan-e-Mustafa. All rights reserved.