(Seal of Prophet hood) مہرِ نبوت



مہرِ نبوت
خالقِ کائنات نے اپنے برگزیدہ نبیوں اور رسولوں کو امتیازاتِ نبوت عطا کر کے انہیں عام انسانوں سے ممتاز پیدا کیا جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ ربّ العزت نے عظمت و رِفعت کا وہ بلند مقام عطا کیا کہ جس تک کسی فردِ بشر کی رسائی ممکن نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی جو اس حکمِ ایزدی کی تصدیق کرتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، ان کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کیلئے مقفل کر دیا گیا ہے۔ یہ مہرِ نبوت دونوں کندھوں کے درمیان ذرا بائیں جانب تھی۔
1۔ حضرت عبداللہ بن سرجیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
فنظرتُ إلي خاتمِ النبوة بين کتفيه عند ناغض کتفه اليسريٰ.
’’میں نے مہرِ نبوت دونوں کندھوں کے درمیان بائیں کندھے کی ہڈی کے قریب دیکھی۔‘‘
مسلم، الصحيح، 4 : 1823، کتاب الفضائل، رقم : 2346
2۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت ابراہیم بن محمد کہتے ہیں :
کان علي إذا وصف رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فذکر الحديث بطوله، وقال : بين کتفيه خاتم النبوة وهو خاتم النبيين صلي الله عليه وآله وسلم .
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات گنواتے تو طویل حدیث بیان فرماتے اور کہتے کہ دونوں شانوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیيّن تھے۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 599، ابواب المناقب، رقم : 3638
2.
ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 328، رقم : 31805
3.
ابن عبدالبر، التمهيد، 3 : 30
4.
ابن هشام، السيرة النبويه، 2 : 248
3۔ مہرِ نبوت خوشبوؤں کا مرکز تھی، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
فالتقمتُ خاتم النبوة بفيّ، فکان ينمّ عليّ مسکاً.
’’پس میں نے مہرِ نبوت اپنے منہ کے قریب کی تو اُس کی دلنواز مہک مجھ پر غالب آرہی تھی۔‘‘
صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 53
صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مہرِنبوت کی ہیئت اور شکل و صورت کا ذکر مختلف تشبیہات سے کیا ہے : کسی نے کبوتر کے انڈے سے، کسی نے گوشت کے ٹکڑے سے اور کسی نے بالوں کے گچھے سے مہرِ نبوت کو تشبیہ دی ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ تشبیہ ہر شخص کے اپنے ذوق کی آئینہ دار ہوتی ہے۔
1۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
کان خاتم رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يعني الذي بين کتفيه غدّة حمراء مثل بيضة الحمامة.
’’ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی، جو کبوتر کے انڈے کی مقدار سرخ ابھرا ہوا گوشت کا ٹکڑا تھا۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 602، ابواب المناقب، رقم : 3644
2.
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 104، رقم : 21036
3.
ابن حبان، الصحيح، 14 : 209، رقم : 6301
4.
ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 328، رقم : 31808
5.
طبراني، المعجم الکبير، 2 : 220، رقم : 1908
6.
ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 425
2۔ حضرت ابو زید عمرو بن اخطب انصاری رضی اللہ عنہ نے اس مہرِ نبوت کو بالوں کے گچھے جیسا کہا۔ ایک دفعہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اپنے پشتِ مبارک پر مالش کرنے کی سعادت بخشی تو اُس موقع پر اُنہوں نے مہرِ اقدس کا مشاہدہ کیا۔ حضرت علیاء (راوی) نے عمرو بن اخطب سے اُس مہرِنبوت کی کیفیت دریافت کی تو انہوں نے کہا :
شعر مجتمع علي کتفه.
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کندھوں کے درمیان چند بالوں کا مجموعہ تھا۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 341، رقم : 22940
2.
حاکم، المستدرک، 2 : 663، رقم : 4198
3.
ابويعلي، المسند، 12 : 240، رقم : 6846
4.
هيثمي، مواردالظمآن، 1 : 514، رقم : 2096
5.
ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 426
3۔ حضرت ابونضرۃ عوفی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں :
سألتُ أبا سعيد الخدري عن خاتم رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يعني خاتم النبوة، فقال : کان في ظهره بضعة ناشزة.
’’میں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مہر یعنی مہرِ نبوت کے متعلق دریافت کیا تو اُنہوں نے جواب دیا : وہ (مہرِ نبوت) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشتِ اقدس میں ایک اُبھرا ہوا گوشت کا ٹکڑا تھا۔‘‘
1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 46، رقم : 22
2.
بخاري، التاريخ الکبير، 4 : 44، رقم : 1910
3.
طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 222
مہرِنبوت آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علامت ہے
مہرِ نبوت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری نبی ہونے کی علامت ہے، سابقہ الہامی کتب میں مذکور تھا کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک علامت اُن کی پشتِ اقدس پر مہرِ نبوت کا موجود ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ کتاب جنہوں نے اپنی کتابوں میں پڑھ رکھا تھا اس نشانی کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاتے تھے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشتِ اقدس پر مہرِ نبوت کی تصدیق کر لینے کے بعد ہی ایمان لائے تھے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کا واقعہ کتبِ تاریخ و سیر میں تفصیل سے درج ہے۔ آتش پرستی سے توبہ کر کے عیسائیت کے دامن سے وابستہ ہوئے۔ پادریوں اور راہبوں سے حصولِ علم کا سلسلہ بھی جاری رہا، لیکن کہیں بھی دل کو اطمینان حاصل نہ ہوا۔
اسی سلسلے میں اُنہوں نے کچھ عرصہ غموریا کے پادری کے ہاں بھی اس کی خدمت میں گزارا۔ غموریا کا پادری الہامی کتب کا ایک جید عالم تھا۔ اس کا آخری وقت آیا تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ اب میں کس کے پاس جاؤں؟ الہامی کتب کے اُس عالم نے بتایا کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ قریب ہے۔ یہ نبی دینِ ابراہیمی کے داعی ہوں گے۔ اور پھر غموریا کے اُس پادری نے مدینہ منورہ کی تمام نشانیاں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بتا دیں کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے کھجوروں کے جھنڈ والے اس شہرِ دلنواز میں سکونت پذیر ہوں گے۔ عیسائی پادری نے اللہ کے اس نبی کے بارے میں بتایا کہ وہ صدقہ نہیں کھائیں گے البتہ ہدیہ قبول کر لیں گے اور یہ کہ ان کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت ہو گی۔ پادری اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا، تلاشِ حق کے مسافر نے غموریا کو خداحافظ کہا اور سلمان فارسی شہرِنبی کی تلاش میں نکل پڑے۔ سفر کے دوران حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ چند تاجروں کے ہتھے چڑھ گئے لیکن تلاشِ حق کے مسافر کے دل میں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی تڑپ ذرا بھی کم نہ ہوئی بلکہ آتشِ شوق اور بھی تیز ہو گئی، یہ تاجر اُنہیں مکہ لے آئے، جس کی سرزمین نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامولد پاک ہونے کا اِعزاز حاصل کر چکی تھی۔ تاجروں نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو اپنا غلام ظاہر کیا اور اُنہیں مدینہ جو اُس وقت یثرب تھا، کے بنی قریظہ کے ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ اُنہوں نے یہودی کی غلامی قبول کر لی . . . یہودی آقا کے ساتھ جب وہ یثرب (مدینہ منورہ) پہنچ گئے توگویا اپنی منزل کو پا لیا۔
غموریا کے پادری نے یثرب کے بارے میں انہیں جو نشانیاں بتائی تھیں وہ تمام نشانیاں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیں، وہ ہر ایک سے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کے بارے میں پوچھتے رہتے لیکن ابھی تک قسمت کا ستارا . . . ثریا پر نہ چمک پایا تھا اور وہ بے خبر تھے کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے اس شہرِ خنک میں تشریف لا نے والے ہیں۔ بعض روایات میں مذکور ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ایک دن اپنے یہودی مالک کے کھجوروں کے باغ میں کام کر رہے تھے، کھجور کے ایک درخت پر چڑھے ہوئے تھے کہ اُنہوں نے سنا کہ اُن کا یہودی مالک کسی سے باتیں کر رہا تھا کہ مکہ سے ہجرت کر کے قبا میں آنے والی ہستی نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کی داعی ہے۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا دل مچل اٹھا، اور تلاشِ حق کے مسافرکی صعوبتیں لمحۂ مسرت میں تبدیل ہو رہی تھیں۔ وہ ایک طشتری میں تازہ کھجوریں سجا کر والیء کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یہ صدقے کی کھجوریں ہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ کھجوریں واپس کر دیں کہ ہم صدقہ نہیں کھایا کرتے۔ غموریا کے پادری کی بتائی ہوئی ایک نشانی سچ ثابت ہو چکی تھی۔ دوسرے دن پھر ایک خوان میں تازہ کھجوریں سجائیں اور کھجوروں کا خوان لے کر رسولِ ذی حشما کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ عرض کی یہ ہدیہ ہے، قبول فرما لیجئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تحفہ قبول فرما لیا اور کھجوریں اپنے صحابہ میں تقسیم فرما دیں۔
دو نشانیوں کی تصدیق ہو چکی تھی۔ اب مُہرِ نبوت کی زیارت باقی رہ گئی تھی۔ تاجدارِکائنات اجنت البقیع میں ایک جنازے میں شرکت کے لئے تشریف لائے اور ایک جگہ جلوہ افروز ہوئے، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ آقائے دوجہاںا کی پشت کی طرف بے تابانہ نگاہیں لگائے بیٹھے تھے۔ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نورِ نبوت سے دیکھ لیا کہ سلمان کیوں بے قراری کا مظاہرہ کر رہا ہے، مخبرِ صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازرہِ محبت اپنی پشت انور سے پردہ ہٹا لیا تاکہ مہرِ نبوت کے دیدار کا طالب اپنے من کی مراد پا لے۔ پھر کیا تھا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی کیفیت ہی بدل گئی، تصویر حیرت بن کے آگے بڑھے، فرطِ محبت سے مہرِ نبوت کو چوم لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرایمان لاکر ہمیشہ کیلئے دامنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستہ ہو گئے.
1. حاکم، المستدرک، 3 : 698، رقم : 6544
2.
بزار، المسند، 6 : 463 - 465، رقم : 2500
3.
طبراني، معجم الکبير، 6 : 222 - 224، رقم : 6065
4.
ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 4 : 75 - 80
5.
ابونعيم اصبهاني، دلائل النبوة، 1 : 40
32۔ مبارک رانیں
حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک رانیں بھی جسم کے دوسرے حصوں کی طرح سفید، چمکدار اور متناسب تھیں۔
1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہ خیبر کے لیے گئے تو ہم نے صبح کی نماز، خیبر کے نزدیک اندھیرے میں ادا کی۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوار ہوئے، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بیٹھے اور میں اُن کے پیچھے بیٹھ گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیبر کی گلیوں میں جا رہے تھے اور میرا گھٹنا آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ران سے لگتا تھا۔
ثم حسر الإزار عن فخذه حتي إنّي أنظر الي بياض فخذ نبي اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
’’پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ران مبارک سے تہبند ہٹائی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ران مبارک کی سفیدی دیکھی۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 1 : 145، ابواب الصلوة في الثياب، رقم : 364
2.
مسلم، الصحيح، 2 : 1044، کتاب النکاح، رقم : 1365
3.
نسائي، السنن، 6 : 132، کتاب النکاح، رقم : 3380
4.
بيهقي، السنن الکبريٰ، 2 : 229، رقم : 3055
5.
صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 78
محدّثین کرام نے بیان کیا ہے کہ جب تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محفل میں جلوہ افروز ہوتے تو بعض کے اقوال کے مطابق رانیں شکمِ اطہر کے ساتھ لگی ہوتیں لیکن بعض محدثین کا کہنا ہے کہ کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھٹنوں پر زور دے کر بھی تشریف فرما ہوتے۔
حضرت ابوامامہ حارثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يجلس القرفصاء.
’’ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی مجلس میں تشریف فرما ہوتے تو رانین شکمِ اطہر کے ساتھ لگی ہوتیں۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 273، رقم : 794
2۔ ترمذي نے الشمائل المحمديہ ( 1 : 115، رقم : 128) ميں قبلہ بنت مخرمہ سے روايت لي ہے۔
3۔ بيہقی نے السنن الکبريٰ (3 : 235، رقم : 5707) میں قبلہ بنت مخرمہ سے روایت لی ہے۔
4. ابن کثير، البدايه والنهايه، 6 : 40
5۔ ابن قیم نے زادالمعاد، 1 : 170 میں قبلہ بنت مخرمہ سے روایت لی ہے۔
 
Copyright © 2010 Shan-e-Mustafa. All rights reserved.