(Ring) انگوٹھی مبارک

سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی مبارک

سید الثقلین ہادی دو عالم تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک اس قدر ذیشان ہے کہ ان کے ساتھ جس چیز کی نسبت ہوئی وہ اعلیٰ بن گئی۔ یہاں تک کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا کہ وہ ذرّے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر سے مَس ہو رہے ہیں وہ عرش و کرسی سے بھی اعلیٰ ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک ادا اس قدر مقبول ٹھہری کہ اس پر مر مٹنا ہر اُمتی کے ایمان کا حصہ ہے۔ یہاں ہم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی مبارک کا مختصر تذکرہ کریں گے تاکہ قلبی سکون حاصل ہو اور شاید یہ تحریر سنت کی طرف رغبت کا ذریعہ بن جائے۔(آمین)
قارئیں محترم! سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو قسم کی انگوٹھیاں تھیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہنا کرتے تھے اور دونوں ہی چاندی کی بنی ہوئی تھیں۔ ایک انگوٹھی مبارک پر محمد رسول اللہ نقش تھا جس سے مُہرکا کام لیا جاتا تھا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب بادشاہوں کو خطوط بھیجا کرتے تھے تو ان پر اپنے دست مبارک سے مُہر ثبت فرمایا کرتے تھے۔ یہ انگوٹھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام نہیں پہنا کرتے تھے بلکہ مہر لگانے کی غرض سے ہی پہنا کرتے تھے۔ یہ مُہروالی انگوٹھی یعلی ٰ بن امیہ نے بنائی تھی۔ اس کے بنانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقوقس قیصر و کسریٰ اور اسی طرح دوسرے بادشاہوں کی طرف عام دعوت کیلئے خطوط ارسال فرمانے کا ارادہ کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ بادشاہوں کے ہاں بغیر مہر کے بھیجا گیا خط یا کوئی مراسلہ قابل قبول نہیںہوتا۔ اس لیے جو بھی خط بھیج جائے وہ مہر شدہ ہو۔
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان خطوط کا سلسلہ صلح حدیبیہ کے واقعہ کے بعد شروع فرمایا یعنی سن چھ یا سات ہجری کے بعد تو اس سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ یہ مہر والی انگوٹھی اسی عرصہ میں تیار کی گئی تھی۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ انگوٹھی خلیفہ اوّل سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس رہی اور ان کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے پاس اسی غرض سے رہی یعنی یہ حضرات اس انگوٹھی سے مہر کا کام لیتے تھے۔ یہ مہر والی انگوٹھی ان تینوں حضرات کے دور خلافت میں ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے پاس ہی رہتی تھی۔ ان حضرات کو جب کبھی ضرورت ہوتی تو اس صحابی سے لے کر کام میں لاتے تھے۔اس انگوٹھی کا مہر کے علاوہ ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ اس کی موجودگی میں اُمت فتنوںسے محفوظ تھی۔
ایک مرتبہ سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ مسجد قباءکے قریب واقع ایک کنواں جسے بئیرا ریس کہا جاتا ہے کے پاس کھڑے تھے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کسی کام کی غرض سے اس صحابی رضی اللہ عنہ سے وہ انگوٹھی مانگی۔ انہوں نے دینے کیلئے ہاتھ بڑھایا مگر وہ ان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے چھوٹ کر کنویں میں جا پڑی۔ سب کو بہت پریشانی لاحق ہوئی۔ لہٰذا اس کی تلاش شروع ہوئی۔بہت کوشش کی گئی مگر کنویں کے جاری ہونے کی وجہ سے ناکامی ہوئی اور اس اچانک افتاد سے اُمت اس انگوٹھی سے محروم ہو گئی اور یہی نہیں بلکہ اس کے بعد فتنوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ بھی چل نکلا جس سے ساری اُمت کو دوچار ہونا پڑا۔
جیسا کے پیچھے ذکر ہوا کہ یہ انگوٹھی چاندی کی بنی ہوئی تھی اور اس پر محمد رسول اللہ نقش تھا (نگینے کی جگہ پر) اس جملہ (محمد رسول اللہ) کی ترتیب کے بارہ میں محدثین کی رائے دو قسم کی رہی ہے۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس کی ترتیب یوں تھی پہلے محمد نقش تھا پھر اس کے نیچے رسول کا لفظ نقش تھا اور پھر سب سے نیچے لفظ اللہ نقش کیا ہوا تھا۔ مگر دوسرے حضرات اس کے برعکس فرماتے ہیں۔ انہوں نے جو ترتیب ذکر فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ سب سے اوپر لفظ اللہ اور اس کے بعد نیچے کی جانب لفظ رسول اور اس سے نیچے لفظ محمد نقش تھا۔ ان دونوں اقوال میں سے آخرالذکر قول راجح ہے اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ استنبول کے عجائب گھر میںسرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خط مقوقس کو لکھا تھا وہ محفوظ ہے اور اس پر مہر بھی واضح ہے۔ اس کی ترتیب یہی ہے۔ لہٰذا اب اس دوسرے قول میں کسی کو اختلاف نہیںہے اور آج کل عام تصاویر میں بھی یہ ملتا ہے کہ پہلی سطر میں اللہ اور دوسری سطر میں رسول اور تیسری سطر میں محمد لکھا ہوا ہے۔
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جو دوسری انگوٹھی پہنا کرتے تھے وہ بھی چاندی کی بنی ہوئی تھی جو کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم عام حالات میں پہنا کرتے تھے۔ مگر اس کی بناوٹ کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض محدثین فرماتے ہیں کہ اس میںنگینہ عقیق پتھر کا بنا ہوا تھا جیسا کہ بعض روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے جبکہ بعض محدثین کرام کی رائے یہ ہے کہ نگینہ بھی چاندی کا بنا ہوا تھا یعنی نگینہ کی جگہ پر بھی چاندی لگی ہوئی تھی اور بنانے والے کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ بعض حضرات فرماتے ہیںکہ حبشہ کے علاقے کی بنی ہوئی تھی جبکہ بعض محدثین فرماتے ہیں کہ کسی حبشی نے بنائی تھی۔ اختلاف رائے اپنی جگہ پر مگر یہ بات مسلّم ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف چاندی کی بنی ہوئی انگوٹھی پہنی ہے۔ حق تعالیٰ شانہ، ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے اور اس سنت سے دل و جان سے پیار کرنے اور اخلاص کے ساتھ اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے (آمین)

 
Copyright © 2010 Shan-e-Mustafa. All rights reserved.