29 May 2012

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند چند خصائص کبریٰ

چند خصائص کبریٰ
1۔ آپ ﷺ کا پیدائش کے اعتبار سے "اول الانبیاء" ہونا جیسا کے حدیث شریف میں آیا ہے کَانَ نَبِیَّا وَّ اٰدَمُ بَیۡنَ الرُّوۡحِ وَالۡجَسَدِیعنی حضور ﷺ اس وقت شرف نبوت سے سرفراز ہوچکے تھے جب کہ حضرت آدم علیہ السلام جسم و روح کی منزلوں سے گزر رہے تھے۔ (زرقانی علی المواہب جلد 5 ص 242)
2۔ آپ ﷺ کا خاتم النبیین ہونا۔
3-تمام مخلوق آپ ﷺ کے لیے پیدا ہوئی۔

4- آپ ﷺ کا مقدس نام عرش اور جنت کی پیشانیوں پر تحریر کیا گیا۔

5- تمام آسمانی کتابوں میں آپ ﷺ کی بشارت دی گئی۔

6-آ پ ﷺ کی ولادت کے وقت تمام بُت اوندھے ہو کر گر پڑے۔

7-آپ ﷺ کا شق صدر ہوا۔

8-آپ ﷺ کو معراج کا شرف عطا کیا گیا اور آپ کی سواری کے لیے براق پیدا کیا گیا۔

9-آپ ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب تبدیل و تحریف سے محفوظ کر دی گئی اور قیامت تک اس کی بقا ء و حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ کرم پر لے لی۔

10-آپ ﷺ کو آیتہ الکرسی عطا کی گئی ۔
11-آپ ﷺ کو تمام خزاءن الارض کی کنجیاں عطا کر دی گئی۔

12- آپ ﷺ کو جوامع الکلم کے معجزہ سے سرفراز کیا گیا۔

13- آپ ﷺ کو رسالت عامہ کے شرف سے ممتاز کیا گیا۔

14-آپ ﷺ کی تصدیق کے لیے معجزہ شق القمر ظہور میں آیا۔

15- آپ ﷺ کے لیے اموال غنیمت کو اللہ تعالیٰ نے حلال فرمایا۔

16- تمام روءے زمین کو اللہ تعالیٰ نے آ پ ﷺ کے لءے مسجد اوار پاکی حاصل کرنے (تیمم ) کا سامان بنادیا۔

17- آپ ﷺ کے بعض معجزات (قرآن مجید) قیامت تک باقی رہیں گے۔

18- اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو ان کا نام لے کر پکارا مگر آپ ﷺ کو اچھے اچھے القاب سے پکارا-
19- اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو" حبیب" کے معزز لقب سے سربلند فرمایا۔
20- اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی رسالت آپ کی حیات آپ کے شہر آپ کے زمانے کی قسم یاد فرمائی۔

21- آپ ﷺ تمام اولاد آدم کے سردار ہیں۔

22- آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے دربار میں "اکرام الخلق"ہیں

23-قبر میں آپ ﷺ کی ذات کے بارے میں منکر نکیر سوال کریں گے۔

24-آپ ﷺ کے بعد آپ ازواج مطہرات کے ساتھ نکاح کرنا حرام ٹھرایا گیا۔

25- ہر نمازی پر واجب کردیا گیا کہ بحالت نمازاَلسَّلامُ عَلَیۡکَ اٰیُّھَاالنَّبِیُّ کہہ کر آپ ﷺ کو سلام کرے۔

26- اگر کسی نمازی کو بحالت نماز حضور ﷺ پکاریں تو وہ نماز چھوڑ کر آپ ﷺ پر دوڑ پڑے یہ اس پر واجب ہے اور ایسا کرنے سے اس کی نماز بھی فاسد نہیں ہو گی۔

27- اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت کا آپ ﷺ کو مختار بنادیا ہے۔ آپ ﷺ جس کے لیے جو چاہیں حلال فرما دیں اور جس کے لیے جو چاہیں حرام فرما دیں۔

28- آپ ﷺ کے منبر اور قبر انور کے درمیان کی زمین جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔

29-صور پھونکنے پر سب سے پہلے آپ ﷺ اپنی قبر انور سے باہر تشریف لائے گئے۔

30- آپ ﷺ کو مقام محمود عطا کیا گیا۔

31- آپ ﷺ کو شفاعت کبریٰ کے اعزاز سے نوازا گیا۔

32- آپ ﷺ کو قیامت کے دن "لواء الحمد " عطا کیا گیا۔
33- آپ ﷺ سب سے پہلے جنت میں داخل ہو نگے۔

34-آپ ﷺ کو حوض کوثر عطا کیا گیا۔

35- قیامت کے دن ہر شخص کا نسب و تعلق منقطع ہو جاءے گا مگر آپ ﷺ کا نسب و تعلق منقطع نہیں ہو گا۔

36- آپ ﷺ کے سوا کسی نبی کے پاس حضرت اسرفیل علیہ السلام نہیں اترے۔

37- آپ ﷺ کے دربار میں بلند آواز سے بولنے والے کے اعمال صالحہ برباد کردیے جاتے ہیں۔
38- آپ ﷺ کو حجروں کے باہر سے پکارنا حرام کر دیا گیا ہے۔
39-آپ ﷺ کی ادنیٰ سی گستاخی کرنے والے کی سزا قتل ہے۔

40- آپ ﷺ کو تمام انبیاء علیھم السلام سے زیادہ معجزات عطا کئے گئے ۔


(فہرست زرقانی علی والمواہب جلد 5)

26 May 2012

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں درخت ہوں‘ فاطمہ اس کی ٹہنی ہے‘ علی اس کا شگوفہ اور حسن و حسین اس کا پھل ہیں


حضرت ابورافع رضی اللہ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حضور نبی کریم ﷺ کے مرض وصال میں اپنے دونوں بیٹوں کو آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں لائیں اور عرض گزار ہوئیں کہ یہ آپ ﷺ کے بیٹے ہیں انہیں کچھ وراثت میں عطا فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: حسن (رضی اللہ عنہ) کیلئے میری ثابت قدمی اور سرداری کی وراثت ہے اور حسین (رضی اللہ عنہٗ) کیلئے میری طاقت و سخاوت کی وراثت۔‘‘ (طبرانی)
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس تھے۔ حضرت ام ایمن آپ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا: حسن و حسین رضی اللہ عنہم اجمعین گم ہوگئے ہیں۔ راوی کہتے ہیں دن خوب نکلا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: چلو میرے بیٹوں کوتلاش کرو‘ راوی کہتا ہے ہر ایک نے اپنا اپنا راستہ لیا اور میں حضورنبی اکرمﷺ کے ساتھ چل پڑا‘ آپ ﷺ مسلسل چلتے رہے حتیٰ کہ پہاڑ کے دامن تک پہنچ گئے (دیکھا کہ) حسن اور حسین رضی اللہ عنہم اجمعین ایک دوسرے کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں اور ایک اژدھا اپنی دم پر کھڑا ہے اور اس کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں۔ آپ ﷺ اس کی طرف تیزی سے بڑھے تو وہ اژدھا حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف متوجہ ہوکر سکڑگیا پھر کھسک کر پتھروں میں چھپ گیا پھر آپ ﷺ حسنین کریمین رضی اللہ عنہم اجمعین کے پاس تشریف لائے اور دونوں کو الگ الگ کیا اور ان کے چہروں کو پونچھا اور فرمایا: میرے ماں باپ تم پر قربان تم اللہ کے ہاں کتنی عزت والے ہو۔ (طبرانی)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوا تو آپ ﷺ (گھٹنوں او دونوں ہاتھوں کے بل) چل رہے تھے اور آپ ﷺ کی پشت مبارک پر حسنین کریمین رضی اللہ عنہم اجمعین سوار تھے اور آپ ﷺ فرما رہے تھے تمہارا اونٹ کیا خوب ہے اور تم دونوں کیا خوب سوار ہو۔ (طبرانی)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً حدیث مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں درخت ہوں‘ فاطمہ اس کی ٹہنی ہے‘ علی اس کا شگوفہ اور حسن و حسین اس کا پھل ہیں اور اہل بیت سے محبت کرنے والے اس کے پتے ہیں‘ یہ سب جنت  میں ہوں گے‘ یہ حق ہے‘ یہ حق ہے (دیلمی

23 May 2012

تعظیم نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے 100 سال کے گناہ معاف اور جنت عطا ہوگئی

تعظیم نام محمد سے 100 سال کے گناہ معاف اور جنت عطا ہو گئی
بنی اسرائیل میں ایک شخص نہایت ہی گناہ گار تھا۔ سو سال گناہوں اور معصیت میں اس نے گزارے، جب اس کی موت واقع ہوگئی تو لوگوں تو بہت خوشی ہوئی۔(لوگ اس کے فتنہ اور فساد سے بیزار تھے)نہ اس کو کسی نے غسل دیا نہ کفن پہنایا نہ نماز جنازہ ادا کی بلکہ اس کو گھسیٹ کر کچڑا کونڈی پر پھینک دیا۔حضر ت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس حضرت سیدنا جبرئیل امین علیہ الصلوۃ والسلام حاضر ہوئے اور عرض کیا۔اے موسیٰ علیہ السلام ! اللہ تعالی آپ کو سلام فرمارہا ہے۔اور اس نے فرمایا کہ میرا ایک ولی انتقال کرگیا ہے۔ لوگوں نے اس کو کچڑا کونڈی پر ڈال دیا ہے۔ اٹھواور اس جاکر وہاں سے اٹھالاواور اس کی تجہیز وتدفین کرو اوار بنی اسرائیل کو فرماؤ کہ اسکی نماز جنازہ پڑھیں۔تاکہ اس کی نماز کی برکت سے ان کے گناہ بخشے جا ئیں۔حضرت موسیٰ کلیم اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام نے بحکم رب الانام عزوجل جب اس کچڑا کونڈی کے پاس تشریف لائے تو اسے دیکھاتو یہ وہی شخص تھا جس نے سو سال نافرمانیوں میں گزارے ۔آپ کو تعجب ہوامگر اللہ عزوجل کا فرمان تھا۔چنانچہ غسل دلایا، کفن پہنایا ، نماز جنازہ پڑھ کرا س کو دفن کردیا۔پھر بارگاہ خداوندی عزوجل میں اس شخص کے بارےمیں ستفسار کیا۔ اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا کہ اے موسیٰ!(علیہ السلام ) وہ شخص واقعی فاسق و فاجر و گناہ گار تھا۔مگر اس نے ایک روز توریت شریف کھولی اس میں میرے حبیب ؐکا نام ِ نامی اسم گرامی محمد ؐلکھا ہوا پایااس نے اس مبارک نام کو چومااور اپنی انکھوں پر لگایا۔ اس کی یہ تعظیم و ادب مجھے پسند آگیا۔میں نے اس کے سو سال کے گناہوں کو بخش دیا۔اور اسے اپنے مقربین کی فہرست میں داخل کرلیا۔ (مدارج النبوت،
 
Copyright © 2010 Shan-e-Mustafa. All rights reserved.