25 Apr 2012

ایک آتش پرست کا قبول اسلام


حضرت احمد بن حرب رحمۃ اللہ علیہ کے پڑوس میں ایک آتش پرست بہرام رہتا تھا۔ بڑا تاجر تھا آپ نے یہ سن کر کہ راستے میں ڈاکوؤں نے اس کا تمام مال تجارت لوٹ لیا۔ آپ کو یہ سن کر بہت افسوس ہوا اور مریدوں سے کہنے لگے کہ غیرمسلم ہے تو کیا ہے‘ ہے تو ہمارا ہمسایہ اس کی غمگساری ہم پر لازم ہے۔ چلو اظہار افسوس کرآئیں کہ بے چارہ بہت غمگین ہے چنانچہ آپ اس کے مکان پر تشریف لے گئے۔ اس نے بھی آپ کا بہت ادب کیا اور گھر کے اندر لیجا کر ایک آراستہ کمرہ میں بٹھا دیا۔ چونکہ سخت قحط پڑا ہوا تھا عزت و ادب تو کیا مگراس نے سمجھا کہ آپ شاید کچھ کھانے پینے کیلئے آئے ہیں آپ نے نورباطن سے سمجھ لیا اور فرمایا بہرام اطمینان رکھو ہم تمہارے یہاں کھانے پینے کیلئے نہیں آئے صرف تمہاری غم خواری کیلئے آئے ہیں کہ ہم نے تمہارا نقصان عظیم کا حال سنا تھا بولا واقعی میرا تو مال لٹا اور مجھے نقصان بھی بہت پہنچا پھر بھی تین امورایسے ہیں جن کا شکر مجھ پر واجب ہے۔
اولاً یہ کہ میں ہی تو لُٹا میں نے تو کسی کو نہیں لوٹا۔ ثانیاً یہ کہ پھر بھی نصف مال تو میرے پاس باقی رہ گیا۔ ثالثاً یہ کہ دنیوی متاع پر ڈاکہ پڑا۔ متاع آخرت تو بچ گئی۔ آپ نے مریدوں کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ اس کی باتوں میں دوستی کی بو آتی ہے۔ پھر آپ نے اس سے پوچھا کہ یہ تو بتائیے کہ تم لوگ آگ کو کیوں پوجتے ہو بولا صرف اس لیے کہ قیامت کے روز میں اس میں جلنے سے محفوظ رہوں گا۔ آپ نے فرمایا دیکھو تم ایک عرصہ سے اس کی پرستش کررہے ہو اور میں نے کبھی ایک دن بھی اس کی اہمیت نہ سمجھی۔ آؤ ہم تم دونوں اس میں ہاتھ ڈالیں۔ معلوم ہوجائے گا کہ یہ تمہاری کتنی رعایت کرتی ہے۔ یہ بات کچھ بہرام کے دل کو لگ گئی اس نے کہا اچھا آپ چار امور مجھے سمجھا دیجئے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو کیوں زندہ کیا؟ فرمایا پیدا کیا اس لیے کہ وہ مالک کو پہچانے‘ رزق دیااس لیے کہ اس کی وجہ ہی سے جان لیں‘ موت یوں دی کہ اس کی قہاری ہی کے سبب اسے سمجھیں پھر زندہ اس لیے کیا کہ اسے اس کی قدرت سے پہچانیں۔بہرام نے کہا اچھا لاؤ اس آگ کو بھی آزمالیں۔ آپ نے ہاتھ ڈالا تو کچھ بھی ضرر نہ پہنچا۔ بہرام نے اسی وقت اسلام قبول کرلیا۔

0 comments:

Post a Comment

 
Copyright © 2010 Shan-e-Mustafa. All rights reserved.