29 Mar 2012

قربِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دفن ہونے کی خواہش

عالئ مرتبت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے حضرات شیخین سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہما کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ اُنہیں قربِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دفن ہونا نصیب ہو، تاکہ عالم برزخ میں بھی قرب و وصالِ محبوب کے لمحات سے ان کی روحوں کو تسکین ملے۔ یارِ غار سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اس نیک خواہش کے بارے مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
لما حضرت أبابکر الوفاة أقعدنی عند رأسه و قال لی : يا علي! إذا أنا مت فغسلني بالکف الذي غسلت به رسول اﷲ و حنطوني و اذهبوا بي إلي البيت الذي فيه رسول اﷲ فاستأذنوا فإن رأيتم الباب قد يفتح فادخلوا بي وإلا فردوني إلي مقابر المسلمين حتي يحکم اﷲ بين عباده. قال : فاغسل و کفن و کنت أول من يأذن إلي الباب فقلت : يا رسول اﷲ! هذا أبوبکر مستأذن، فرأيت الباب قد يفتح، و سمعت قائلا يقول : ادخلوا الحبيب إلي حبيبه فإن الحبيب إلي الحبيب مشتاق.
حلبي، السيرة الحلبية، 3 : 493
سيوطي، الخصائص الکبریٰ، 2 : 492
ابن عساکر، تاريخ دمشق، 30 : 436
’’جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے مجھے اپنے سرہانے بٹھایا اور فرمایا : اے علی! جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھے اس ہاتھ سے غسل دینا جس سے تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا تھا اور مجھے خوشبو لگانا اور مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس کے پاس لیجانا، اگر تم دیکھو کہ دروازہ کھول دیا گیا ہے تو مجھے وہاں دفن کر دینا ورنہ واپس لا کر عامۃ المسلمین کے قبرستان میں دفن کر دینا تاوقتیکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ کو غسل اور کفن دیا گیا اور میں نے سب سے پہلے روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر پہنچ کر اجازت طلب کی میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ابوبکر آپ سے داخلہ کی اجازت مانگ رہے ہیں، پھر میں نے دیکھا کہ روضہ اقدس کا دروازہ کھول دیا گیا اور آواز آئی۔ حبیب کو اس کے حبیب کے ہاں داخل کر دو بے شک حبیب ملاقاتِ حبیب کے لئے مشتاق ہے۔‘‘
اسی طرح امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی اپنے آقائے کریم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کے بہت ہی زیادہ خواہاں تھے۔ جب قاتلانہ حملے کے نتیجے میں آپ کی وفات کا وقت قریب آگیا تو آپ نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کوسیدہ عائشہ رضی اﷲ عہنا کے پاس اجازت لینے کے لئے بھیجا اگرچہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا خود یہ خواہش رکھتی تھیں اور انہوں نے فرمایا ہوا تھا کہ وہ اس جگہ کو اپنی تدفین کے لئے پسند کرتی ہیں مگر وہ فرمانے لگیں کہ اب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے اوپر ترجیح دیتی ہوں۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ واپس آئے اور اپنے والد کو خوشخبری سنائی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
ما کان شئ أهم إليّ من ذالک المضجع فإذا قبضت فاحملونی ثم سلموا، ثم قل : يستأذن عمر بن الخطاب فإن أذنت لي فادفنوني، و إلا فردوني إلي مقابر المسلمين.
بخاري، الصحيح، 1 : 469، کتاب الجنائز، رقم : 1328
ابن حبان، الصحيح، 15 : 353
بيهقي، السنن الکبریٰ، 4 : 58
ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 290
نووي، تہذيب الاسماء، 2 : 332
شوکاني، نيل الاوطار، 6 : 159
یہ روایت حاکم نے’ المستدرک( 3 : 99، رقم : 4519 )‘ میں ابن ابی شیبہ نے’ المصنف (7 : 440، رقم : 37074)‘میں اور ابن سعدنے ’الطبقات الکبریٰ ( 3 : 363) میں رواۃ اور الفاظ کے قدرے اختلاف کے ساتھ بیان کی ہے۔
’’میرے نزدیک اس آرام گاہ سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں ہے۔ جب میں انتقال کرجاؤں تو مجھے اٹھا کر (اس جگہ پر) لے جانا، سلام عرض کرنا اور عرض کرنا کہ عمر بن خطاب اجازت چاہتا ہے اگر وہ (سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا) اجازت دے دیں تو دفن کر دینا ورنہ مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔‘‘
سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی اس خواہش کی توجیہ صرف یہی ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب دفن ہونا باعث برکت سمجھتے تھے۔

12 Mar 2012

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے بچوں کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گھٹی دلواتے

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے بچوں کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گھٹی دلواتے
مستند ترین کتبِ احادیث میں یہ مثالیں بھی بکثرت ملتی ہیں کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اسے گھٹّی دلوانے اور اس کا نام رکھوانے کے لیے بارگاہِ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نومولود کے منہ میں اپنا مبارک لعابِ دہن ڈالتے اور یوں اس بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے جو چیز پہنچتی وہ دوجہانوں کے والی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک لعابِ دہن ہوتا۔
2۔ حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اﷲ عنھما بیان کرتی ہیں :
أنها حَملتْ بعبد اﷲ بن الزبير، قالتْ : فخرجتُ و أنا مُتِمٌّ، فأتيتُ المدينةَ فنزلتُ بقُبَاء، فولدتهُ بقُباء، ثم أتيتُ به النبی صلی الله عليه وآله وسلم فوضَعتُه فی حِجرِه، ثم دعا بتمرة، فَمَضَغَهَا، ثم تَفَل فی فيه، فکان أوّلَ شئ دخل جوفَه ريقُ رسولِ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، ثم حَنَّکَه بتمرة، ثم دعاله و بَرَّکَ عليه.
بخاری، الصحيح، 3 : 1422، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 3697
بخاری، الصحيح، 5 : 2081، کتاب العقيقة، رقم : 5152
مسلم، الصحيح، 3 : 1691، کتاب الآداب، رقم : 2146
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 347، رقم : 26983
حاکم، المستدرک، 3 : 632، رقم : 6330
بیهقی، السنن الکبری، 6 : 204، رقم : 11927
ابن ابی شيبه، المصنف، 5 : 37، رقم : 23483
ابن ابی شيبه، المصنف، 7 : 346، رقم : 36622
شیبانی، الآحاد والمثانی، 1 : 413، 412، رقم : 573 - 574 - 575
بخاری، التاريخ الکبير، 5 : 6، رقم : 9
ابن جوزی، صفوة الصفوة، 1 : 764
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 3 : 906، رقم : 1535
ابن حبان، الثقات، 3 : 212، رقم : 707
ابونعيم، حلية الأولياء : 1 : 333 (ہشام بن عروہ اور فاطمہ بنت منذر سے روایت ہے)
ابن حبان، مشاهير علماء الأمصار، 1 : 30، رقم : 154
’’کہ وہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  کے ساتھ حاملہ تھیں انہوں نے کہا : میں مکہ سے (ہجرت کے لئے) اس حالت میں نکلی کہ میرے وضع حمل کے دن پورے تھے میں مدینہ آئی اور قبا میں اتری اور وہیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  پیدا ہوئے پھر میں اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی اور میں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود مبارک میں ڈال دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور منگوائی اور اسے چبایا۔ پھر بچہ کے منہ میں لعابِ دہن ڈال دیا اور جو چیز سب سے پہلے اس کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لعاب مبارک تھا۔ پھر اس کے تالو میں کھجور لگا دی، اس کے حق میں دعا کی اور اس پر مبارکباد دی۔‘‘
4۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
ذهبتُ بِعبدِ اﷲ بن أبی طلحة الأنصاری إلی رسولِ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم حين وُلِدَ، و رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في عَبَاءَ ةٍ يَهْنأُ بَعيرًا له فقال : هل معکَ تمرٌ؟ فقلتُ : نعم، فناولتهُ تَمَراتٍ، فألقاهُنَّ في فيه فَلاکَهُنَّ، ثم فَغَرَفا الصَّبِیَّ فمَجَّه في فيه، فجعل الصبي يَتَلَمَّظُهُ، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : حُبُّ الأنصارِ التمر. و سماه عبدَ اﷲِ.
مسلم، الصحيح، 3 : 1689، کتاب الأداب : رقم : 2144
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 175، 212، 287، رقم : 12812، 13233، 14097
بيهقي، السنن الکبریٰ، 9 : 305
ابن حبان، الصحيح، 10 : 393، رقم : 4531
ابويعلي، المسند، 6 : 37، رقم : 3283
ابوداؤد، السنن، 4 : 288، کتاب الأدب، رقم : 4951
ابن سعد، الطبقات الکبری، 8 : 433
عبد بن حميد، المسند، 1 : 393، رقم : 1321
بخاري، الأدب المفرد، 1 : 429، رقم : 1254
ابوعوانه، المسند، 5 : 240، رقم : 8550
’’جب حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ  پیدا ہوئے تو میں ان کو لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک چادر اوڑھے اپنے اونٹ کو روغن مل رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہارے پاس کھجوریں ہیں؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں۔ پھر میں نے کچھ کھجوریں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش کیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ اپنے منہ میں ڈال کر چبائیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچہ کا منہ کھول کر اسے بچہ کے منہ میں ڈال دیا اور بچہ اسے چوسنے لگا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انصار کو کھجوروں سے محبت ہے۔ اور اس بچے کا نام عبداللہ رکھا۔‘‘

9 Mar 2012

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب دہن سے بیماروں کو شفایابی

مستند احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیماروں کو دم فرماتے اور اپنا مبارک لعابِ دہن اپنی انگشتِ شہادت سے زمین پر ملتے اور اسے منجمد کر کے بیمار شخص کی تکلیف کی جگہ پر ملتے اور اﷲ تعالیٰ سے اس کی شفایابی کی دعا فرماتے۔
1۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا بیان کرتی ہیں کہ جب کسی انسان کو تکلیف ہوتی یا کوئی زخم ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعاب دہن مٹی کے ساتھ ملا کر لگاتے اور اس کی شفایابی کے لئے یہ مبارک الفاظ دہراتے :
بِسم اﷲ، تُربةُ أرضِنا، بريقة بعضنا، يُشفَی سَقِيْمُنا، بِإذنِ رَبِّنا.
بخاری، الصحيح، 5 : 2168، کتاب الطب، رقم : 5413
مسلم، الصحيح، 4 : 1724، کتاب السلام، رقم : 2194
ابوداؤد، السنن، 4 : 12، کتاب الطب، رقم : 3895
ابن ماجه، السنن، 2 : 1163، کتاب الطب، رقم : 3521
نسائی، عمل اليوم والليلة، 1 : 559، رقم : 1023
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 93، رقم : 24661
حاکم، المستدرک، 4 : 457، رقم : 8266
ابن حبان، الصحيح، 7 : 238، رقم : 2973
ابویعلی، المسند، 8 : 22، رقم : 4527
بغوی، شرح السنة، 5 : 224، رقم : 1414
’’اللہ کے نام سے شفا طلب کر رہا ہوں، ہماری زمین کی مٹی اور ہم میں سے بعض کا لعاب اﷲ کے حکم سے ہمارے مریض کو شفا دیتا ہے۔‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ ’’ہم میں سے کسی کے لعاب دہن سے‘‘ سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دم فرماتے وقت مبارک لعابِ دہن لگایا کرتے تھے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اس حدیث کا مطلب ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعابِ دہن اپنی انگشتِ شہادت پر لے کر زمین پر ملتے اور اسے منجمد کر کے اسے تکلیف یا زخم کی جگہ پر ملتے اور ملتے ہوئے حدیث میں مذکورہ بالا الفاظ ارشاد فرماتے۔‘‘ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اس حدیث سے ہر بیماری میں دم کرنے کا جواز ثابت ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحابہ رضی اﷲ عنہم کے درمیان یہ امر عام اور معروف تھا۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی انگلی مبارک زمین پر رکھنا اور اس پر مٹی ڈالنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دورانِ دم ایسا عمل کرنا درست اور جائز ہے۔۔ ۔ ۔ اور بیشک اس سے اسماءِ الٰہی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار سے تبرک حاصل کرنا ثابت ہے، پھر دم اور اسماء مبارکہ وغیرہ کے اثرات اس قدر حیران کن ہیں جن کی حقیقت سے عقل ماؤف ہو جاتی ہے۔‘‘
عسقلانی، فتح الباری، 10 : 208

5 Mar 2012

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسد اطہر سے ہمیشہ پاکیزہ خوشبو آتی تھی

 پسینہ مبارک سے حصولِ برکت
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسد اطہر سے ہمیشہ پاکیزہ خوشبو آتی تھی، صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے اس خوشبو کو مشک و عنبر اور پھول کی خوشبو سے بڑھ کر پایا۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اپنے لئے، اپنے بچوں کے لئے، اور شادی بیاہ کے موقع پر اپنی بیٹیوں کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک کو حاصل کرتے، اس سے برکت کی امید رکھتے اور بڑے اہتمام کے ساتھ اس متاعِ عزیز کو سنبھال کر رکھتے۔
حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے چمڑے کا ایک گدا بچھایا کرتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہاں اسی گدے پر قیلولہ فرمایا کرتے تھے۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ کا) بیان ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سونے سے بیدار ہوکر اٹھ کھڑے ہوتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ مبارک اور موئے مبارک کو ایک شیشی میں جمع کرتیں پھر ان کو خوشبو کے برتن میں ڈال دیتیں۔
حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
فلما حضر أنس بن مالک الوفاةُ أوصیٰ إلي أن يُجْعل فی حنوطه من ذالک السُّکِ، قال : فجُعل فی حنوطه.
بخاری، الصحيح، 5 : 2316، کتاب الاستئذان، رقم : 5925
شوکانی، نيل الاوطار، 1 : 69
(٭) حنوط : وہ خوشبو جو کافور اور صندل ملا کر میت اور کفن کے لئے تیار کی جاتی ہے۔
’’جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے وصیت فرمائی کہ ان کے حنوط(٭) میں اس خوشبو کو ملایا جائے۔ حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے حنوط میں وہ خوشبو ملائی گئی۔‘‘
2۔ حضرت حمید سے روایت ہے کہ :
توفی أنس بن مالک فجعل فی حنوطه سکة أو سک و مسکة فيها من عرق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم۔
طبراني، المعجم الکبير، 1 : 249، رقم : 715
بيهقي، السنن الکبري، 3 : 406، رقم : 6500
هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 21 (امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں)
’’جب حضرت انس رضی اللہ عنہ نے وفات پائی تو ان کے حنوط میں ایسی خوشبو ملائی گئی جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینے کی خوشبو تھی۔‘‘
3۔ اسی طرح دوسری روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور قیلولہ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسینہ آیا اور میری والدہ ایک شیشی لیکر آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ پونچھ پونچھ کر اس میں ڈالنے لگیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
يا أم سليم! ما هذا الذي تصنعين؟ قالت : هذا عرقک نجعله في طِيبِنا و هو مِن أطيب الطيب.
مسلم، الصحيح، 4 : 1815، کتاب الفضائل، رقم : 2331
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 136، 287، رقم : 12419، 14091
نسائي، السنن، 8 : 218، کتاب الزينة، رقم : 5371
نسائي، السنن الکبری، 5 : 506، رقم : 9806
يوسف بن موسیٰ، معتصر المختصر، 1 : 17
ابو يعلي، المسند، 6 : 409، رقم : 3769
ذهبي، سير اعلام النبلاء، 2 : 308
عبد بن حميد، المسند، 1 : 378، رقم : 1268
طبراني، المعجم الکبير، 25 : 119، رقم : 289
اصبهاني، دلائل النبوة، 1 : 59، رقم : 40
ابو نعيم، حلية الاولياء، 2 : 61
بيهقي، شعب الايمان، 2 : 154، رقم : 1429
عسقلاني، فتح الباري، 11 : 72
’’اے ام سلیم! تم یہ کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا : یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ ہے جس کو ہم اپنی خوشبو میں ڈالیں گے اور یہ سب سے اچھی خوشبو ہے۔‘‘
4۔ ایک اور روایت میں حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنہا نے پسینہ مبارک جمع کرنے کی وجہ برکت کا حصول بتایا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا :
ما تصنعين يا ام سليم؟ فقالت : يا رسول اﷲ! نرجو برکته لصبياننا. قال : أصبت.
مسلم، الصحيح، 4 : 1815، کتاب الفضائل، رقم : 2331
احمد بن حنبل، المسند : 3 : 226، رقم : 13390
بيهقي، السنن الکبریٰ، 1 : 254، رقم : 1130
عسقلاني، فتح الباري، 11 : 72
’’اے ام سلیم! تم کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے کہا یا رسول اﷲ! ہم اس میں اپنے بچوں کے لئے برکت کی امید رکھتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہاری امید درست ہے۔‘‘

3 Mar 2012

جنگ میں فتح کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم موئے مبارک کا توسل

۔ جنگ میں فتح کے لئے موئے مبارک کا توسل
حضرت صفیہ بنت نجدہ سے مروی ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی مبارک میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند موئے مبارک تھے۔ ایک دفعہ وہ ٹوپی کسی جہاد میں گرپڑی تواس کے لینے کیلئے تیزی سے دوڑے جبکہ اس معرکے میں بکثرت صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم شہید ہوئے، اس پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
لم أفعلْها بسبب القَلَنْسُوة، بل لما تضَمَّنَتْه من شَعرِه صلی الله عليه وآله وسلم لئلا أسْلَب برکتها وتقع فی أيدی المشرکين.
قاضی عياض، الشفاء بتعريف حقوق المصطفیٰ، 2 : 619
’’میں نے صرف ٹوپی کے حاصل کرنے کیلئے اتنی تگ و دو نہیں کی تھی بلکہ اس لئے کہ اس ٹوپی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک تھے مجھے خوف ہوا کہ کہیں اس کی برکت سے محروم نہ ہو جاؤں اور دوسرا یہ کہ یہ کفار و مشرکین کے ہاتھ نہ لگ جائے۔‘‘
موئے مبارک کی برکت سے جنگ یرموک میں مسلمانوں کی فتح
تاریخ واقدی اور دیگر کتب سیر میں مروی ہے کہ جب شام میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جبلہ بن ایہم کی قوم کے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے ایک روز مسلمانوں کے قلیل لشکر کا دُشمن سے آمنا سامنا ہوا تو اُنہوں نے رومیوں کے بڑے افسر کو مار دیا، اس وقت جبلہ نے تمام رومی اور عرب فوج کو یکبارگی حملہ کرنے کا حکم دیا۔ صحابہ رضی اللہ عنھم کی حالت نہایت نازک تھی اور رافع ابن عمر طائی نے خالد رضی اللہ عنہ سے کہا ’’آج معلوم ہوتا ہے کہ ہماری قضا آگئی۔‘‘ خالد رضی اللہ عنہ نے کہا : سچ کہتے ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں وہ ٹوپی بھول آیا ہوں جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک ہیں۔ ادھر یہ حالت تھی اور ادھر رات ہی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو جو فوج کے سپہ سالار تھے خواب میں زجر وتوبیخ فرمائی کہ تم اس وقت خواب غفلت میں پڑے ہو اٹھو اور فوراً خالد بن ولید کی مدد کو پہنچو کہ کفارنے ان کو گھیر لیا ہے۔ اگر تم اس وقت جاؤ گے تو وقت پر پہنچ جاؤ گے۔ ابو عبیدہ نے اسی وقت لشکر کو حکم دیا کہ جلد تیار ہو جائے چنانچہ وہاں سے وہ مع فوج یلغار کے لئے روانہ ہوئے۔ راستے میں کیا دیکھتے ہیں کہ فوج کے آگے آگے نہایت سرعت سے ایک سوار گھوڑا دوڑاتے ہوئے چلا جا رہا ہے اس طرح کہ کوئی اس کی گرد کو نہیں پہنچ سکتا تھا۔ انہوں نے خیال کیا کہ شایدکوئی فرشتہ ہے جو مدد کے لئے جا رہا ہے مگر احتیاطاً چند تیز رفتار سواروں کو حکم کیا کہ اس سوار کا حال دریافت کریں، جب قریب پہنچے تو پکار کر اس جوان کو توقف کرنے کے لئے کہا یہ سنتے ہی وہ جسے ہم جوان سمجھ رہے تھے رکا تو ہم نے دیکھا کہ وہ تو خالد بن ولید کی اہلیہ محترمہ تھیں۔ ان سے حال دریافت کیا گیا تو وہ گویا ہوئیں : کہ اے امیر! جب رات کے وقت میں نے سنا کہ آپ نے نہایت بے تابی سے لوگوں سے فرمایا کہ خالد بن ولید کو دشمن نے گھیر لیا تو میں نے خیال کیا کہ وہ ناکام کبھی نہ ہوں گے کیونکہ ان کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک ہیں، مگر اتفاقاً ان کی ٹوپی پر نظر پڑی جو وہ گھر بھول آئے تھے اور جس میں موئے مبارک تھے۔ بعجلتِ تمام میں نے ٹوپی لی اور اب چاہتی ہوں کہ کسی طرح اس کوان تک پہنچا دوں۔ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جلدی سے جاؤ خدا تمہیں برکت دے۔ چنانچہ وہ گھوڑے کو ایڑ لگا کر آگے بڑھ گئیں۔ حضرت رافع بن عمر جو حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے بیان کرتے ہیں کہ ہماری یہ حالت تھی کہ اپنی زندگی سے مایوس ہوگئے تھے یکبار گی تہلیل و تکبیر کی آوازیں بلند ہوئیں، حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو تجسس ہوا کہ یہ آواز کدھر سے آرہی ہے کہ اچانک ان کی رومی سواروں پر نظر پڑی جو بدحواس ہو کر بھاگے چلے آ رہے تھے اور ایک سوار ان کا پیچھا کر رہا تھا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ گھوڑا دوڑا کر اس سوار کے قریب پہنچے اور پوچھا کہ اے جوانمرد تو کون ہے؟ آواز آئی کہ میں تمہاری اہلیہ ام تمیم ہوں اور تمہاری مبارک ٹوپی لائی ہوں جس کی برکت سے تم دشمن پر فتح پایا کرتے تھے۔
راوئ حدیث قسم کھا کر کہتے ہیں کہ جب خالد رضی اللہ عنہ نے ٹوپی پہن کر کفار پر حملہ کیا تو لشکر کفار کے پاؤں اکھڑ گئے اور لشکر اسلام کو فتح نصیب ہوئی۔
محمد انوار اﷲ فاروقی، مقاصد الاسلام، 9 : 273 - 275
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو موئے مبارک میں جو برکت دکھائی دیتی تھی وہ اہل عقول کی سمجھ میں نہیں آسکتی کہ وہ کیا چیز ہے حسی یا معنوی جو بالوں کے اندر رہتی ہے یا سطح بالائی پر وہ چاہے کتنی ہی موشگافیاں کریں ان کے لئے اس کا سمجھنا مشکل ہے۔ اس روایت سے سب مشکلات حل ہوگئیں اور معلوم ہوگیا کہ مشکل سے مشکل کاموں میں آسانی اور امداد غیبی کا مل جانا اس برکت کا ایک ادنیٰ سا کرشمہ تھا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے فتح موئے مبارک کی برکت سے حاصل ہوتی تھی۔
عبدالحمید بن جعفر سے روایت ہے کہ یرموک کی لڑائی میں یہ ٹوپی سر سے غائب تھی جب تک وہ نہیں ملی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نہایت الجھن میں رہے اور ملنے کے بعد اطمینان ہوا۔اس وقت آپ نے یہ ماجرا بیان فرمایا کہ :
فما وجهت فی وجه الا فتح لی.
ابو يعلی، المسند، 13 : 138، رقم : 7183
عسقلانی، الا صابه فی تمییز الصحابه، 1 : 414
واقدی، المغازی، 2 : 884
’’میں نے جدھر بھی رخ کیا اس موئے مبارک کی برکت سے فتح حاصل کی۔‘‘
اسی طرح تاریخ واقدی میں یہ واقعہ درج ہے کہ جنگ یرموک کے ایک معرکے میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا مقابلہ ایک نسطور نامی پہلوان سے ہوا۔ یہ مقابلہ دیر تک رہا، اچانک حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا گھوڑا ٹھوکر کھا کر گرا اور آپ کی ٹوپی زمین پر گرگئی۔ آپ ٹوپی اٹھانے میں لگ گئے اور اتنے میں وہ پہلوان آپ کی پیٹھ پر سوار ہوگیا۔ آپ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ اللہ تم پر رحم کرے۔ میری ٹوپی مجھے واپس دلادو۔ ٹوپی آپ کو دی گئی جسے پہن کر آپ رضی اللہ عنہ نسطور پر غالب آگئے اور اس کا کام تمام کر دیا۔ بعد میں لوگوں نے کہا آپ نے یہ کیا حرکت کی اور ایک ٹوپی کی خاطر اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال لیا۔ آپ نے بتایا کہ وہ ٹوپی معمولی ٹوپی نہ تھی کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک سلے ہوئے تھے۔
 
Copyright © 2010 Shan-e-Mustafa. All rights reserved.