بنی اسرائیل میں ایک شخص نہایت ہی گناہ گار تھا۔ سو سال گناہوں اور معصیت میں اس نے گزارے، جب اس کی موت واقع ہوگئی تو لوگوں تو بہت خوشی ہوئی۔(لوگ اس کے فتنہ اور فساد سے بیزار تھے)نہ اس کو کسی نے غسل دیا نہ کفن پہنایا نہ نماز جنازہ ادا کی بلکہ اس کو گھسیٹ کر کچڑا کونڈی پر پھینک دیا۔حضر ت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس حضرت سیدنا جبرئیل امین علیہ الصلوۃ والسلام حاضر ہوئے اور عرض کیا۔اے موسیٰ علیہ السلام ! اللہ تعالی آپ کو سلام فرمارہا ہے۔اور اس نے فرمایا کہ میرا ایک ولی انتقال کرگیا ہے۔ لوگوں نے اس کو کچڑا کونڈی پر ڈال دیا ہے۔ اٹھواور اس جاکر وہاں سے اٹھالاواور اس کی تجہیز وتدفین کرو اوار بنی اسرائیل کو فرماؤ کہ اسکی نماز جنازہ پڑھیں۔تاکہ اس کی نماز کی برکت سے ان کے گناہ بخشے جا ئیں۔حضرت موسیٰ کلیم اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام نے بحکم رب الانام عزوجل جب اس کچڑا کونڈی کے پاس تشریف لائے تو اسے دیکھاتو یہ وہی شخص تھا جس نے سو سال نافرمانیوں میں گزارے ۔آپ کو تعجب ہوامگر اللہ عزوجل کا فرمان تھا۔چنانچہ غسل دلایا، کفن پہنایا ، نماز جنازہ پڑھ کرا س کو دفن کردیا۔پھر بارگاہ خداوندی عزوجل میں اس شخص کے بارےمیں ستفسار کیا۔ اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا کہ اے موسیٰ!(علیہ السلام ) وہ شخص واقعی فاسق و فاجر و گناہ گار تھا۔مگر اس نے ایک روز توریت شریف کھولی اس میں میرے حبیب ؐکا نام ِ نامی اسم گرامی محمد ؐلکھا ہوا پایااس نے اس مبارک نام کو چومااور اپنی انکھوں پر لگایا۔ اس کی یہ تعظیم و ادب مجھے پسند آگیا۔میں نے اس کے سو سال کے گناہوں کو بخش دیا۔اور اسے اپنے مقربین کی فہرست میں داخل کرلیا۔ (مدارج النبوت،
25 Jan 2012
جس گھر میں کوئی محمد نام والا ہو، اس گھر میں برکت ہوتی ہے۔
جس گھر میں کوئی محمد نام والا ہو، اس گھر میں برکت ہوتی ہے۔
سیّدنا امام مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا، جس گھر میں کوئی محمد نام والا ہو اس گھر میں برکت ذیادہ ہوتی ہے۔زرقانی علی المواہب 302، احکام شریعت40۔
23 Jan 2012
جس گھرمیں محمد نام کا کوئی ہو اس گھر کا پہرا فرشتے دیتے ہیں
جس گھرمیں محمد نام کا کوئی ہو اس گھر کا پہرا فرشتے دیتے ہیں
کچھ اللہ تعالی کے ایسے فرشتے ہیں جو زمین پر چکر لگاتے رہتے ہیں ان کی ڈیوٹی یہ ہےکہ جس گھر میں کوئی محمد نام والا ہو اس کا پہرا دینا۔سیرت حلبیہ 79۔
21 Jan 2012
جب بچے کا نام محمد رکھو تو پھر اس کی تعظیم کرو
جب بچے کا نام محمد رکھو تو پھر اس کی تعظیم کرو اور اسکی قباحت و برائی نہ کرو
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہےجب تم بچے کا نام محمد رکھو تو پھراس کی عزت کرو اور اس کے لیے جگہ فراخ کرو اور اس کی قباحت و برائی مت کرو۔زرقانی علی المواہب 302، احکام شریعت 40۔
19 Jan 2012
جو اپنے بیٹے کا نام محمد نہ رکھے وہ جاہل ہے
جو اپنے بیٹے کا نام محمد نہ رکھے وہ جاہل ہے۔
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
جس کے تین لڑکے پیدا ہوئے اور اس نے کسی کا نام محمد نہ رکھا وہ جاہل ہے۔
۔سیرت حلبیہ۔79۔احکمام شریعت 39۔
18 Jan 2012
جس مومن کا نام محمد ہو اس پر دوزخ حرام ہے
جس مومن کا نام محمد ہو اس پر دوزخ حرام ہے۔
سیدنا نبیط رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے، اے محبوب مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم میں کسی ایسے بندے کو دوزخ کا عذاب نہ دوںگا جس نے اپنانام ترے نام پر رکھا۔ زرقانی علی المواہب۔
--
**Asif Rao**
**Sargodha**
جس مومن کا نام محمد ہو اس پر دوزخ حرام ہے
جس مومن کا نام محمد ہو اس پر دوزخ حرام ہے۔
سیدنا نبیط رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے، اے محبوب مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم میں کسی ایسے بندے کو دوزخ کا عذاب نہ دوںگا جس نے اپنانام ترے نام پر رکھا۔ زرقانی علی المواہب
17 Jan 2012
میں نے اپنی ذات پر قسم کھائی ہے کہ جس کا نام محمد یا احمد ہوگا وہ دوزخ نہیں جائے گا
جس کا نام محمد یا احمد ہو وہ جنت داخل کر دیا جائیگا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
قیامت کے دن دو بندے دربار الہی میں کھڑے کیے جائیں گے اس میں سے ایک کا نام محمد اور دوسرے کا نام احمد ہوگا، اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہوگا کہ ان دونوں کو جنت لے جاو وہ دونوں عرض کریں گے یا اللہ ہم کس عمل کی وجہ سے جنت کے حقدار ہوئے حالانکہ ہم نے تو کوئی عمل جنتیوں والا نہیں کیا، اس پر اللہ تعالی فرمائے گا، تم دونوں جنت جاو کیونکہ میں نے اپنی ذات پر قسم کھائی ہے کہ جس کا نام محمد یا احمد ہوگا وہ دوزخ نہیں جائے گا.
زرقانی علی المواہب۔
16 Jan 2012
جو شخص اپنے بیٹے کا نام محمد رکھے وہ باپ بیٹا دونوں جنتی
جو شخص اپنے بیٹے کا نام محمد رکھے وہ باپ بیٹا دونوں جنتی
سید نا ابو امامہ رضي اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، جس کے ہاں بچہ پیدا ہوا اس نے میری محبت کی وجہ سے اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لیے بچے کا نام محمد رکھا تو وہ دونوں باپ بیٹا جنت جائیں گے۔زرقانی علی المواہب۔
14 Jan 2012
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آسمانوں سے نازل ہوا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب چھ ماہ گزر گئے تو خواب میں کوئی آنے والا آیا اور اس نے کہا۔
اے آمنہ تیرے شکم پاک میں وہ ہے کہ سارے جہانوں سے افضل و اعلي ہے اور جب اس کی ولادت ہو تو اس کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم رکھنا۔ مواہب لدنیہ۔
12 Jan 2012
عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اذانِ بلالی رضی اللہ عنہ
وارفتگی عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اذانِ بلالی رضی اللہ عنہ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد سیدنا بلال رضی اللہ عنہ مدینہ کی گلیوں میں یہ کہتے پھرتے کہ لوگو تم نے کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے تو مجھے بھی دکھا دو، پھر کہنے لگے کہ اب مدینے میں میرا رہنا دشوار ہے، اور شام کے شہر حلب میں چلے گئے۔ تقریباً چھ ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے :
ما هذه الجفوة، يا بلال! ما آن لک أن تزورنا؟
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 308
’’اے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟ (تو نے ہمیں ملنا چھوڑ دیا)، کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا؟‘‘
خواب سے بیدار ہوتے ہی اونٹنی پر سوار ہو کر لبیک! یا سیدی یا رسول اﷲ! کہتے ہوئے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے مسجدِ نبوی پہنچ کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی نگاہوں نے عالمِ وارفتگی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ کبھی مسجد میں تلاش کرتے اور کبھی حجروں میں، جب کہیں نہ پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا تھا کہ آکر مل جاؤ، غلام حلب سے بہرِ ملاقات حاضر ہوا ہے۔ یہ کہا اور بے ہوش ہو کر مزارِ پُر انوار کے پاس گر پڑے، کافی دیر بعد ہوش آیا۔ اتنے میں سارے مدینے میں یہ خبر پھیل گئی کہ مؤذنِ رسول حضرت بلال رضی اللہ عنہ آگئے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے بوڑھے، جوان، مرد، عورتیں اور بچے اکٹھے ہو کر عرض کرنے لگے کہ بلال! ایک دفعہ وہ اذان سنا دو جو محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں سناتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں معذرت خواہ ہوں کیونکہ میں جب اذان پڑھتا تھا تو اشہد ان محمداً رسول اﷲ کہتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا تھا۔ اب یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے کسے دیکھوں گا؟
بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ حسنین کریمین رضی اﷲ عنہما سے سفارش کروائی جائے، جب وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کے لیے کہیں گے تو وہ انکار نہ کرسکیں گے۔ چنانچہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :
يا بلال! نشتهی نسمع أذانک الذی کنت تؤذن لرسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فی المسجد.
سبکی، شفاء السقام : 239
هيتمی، الجوهر المنظم : 27
هيتمی، الجوهر المنظم : 27
’’اے بلال! ہم آج آپ سے وہی اذان سننا چاہتے ہیں جو آپ (ہمارے ناناجان) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مسجد میں سناتے تھے۔‘‘
اب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو انکار کا یارا نہ تھا، لہٰذا اسی مقام پر کھڑے ہوکر اذان دی جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات میں دیا کرتے تھے۔ بعد کی کیفیات کا حال کتبِ سیر میں یوں بیان ہوا ہے :
فلما قال : اﷲ أکبر، اﷲ أکبر، ارتجَّت المدينة، فلما أن قال : أشهد أن لا إلٰه إلا اﷲ، ازداد رجّتها، فلما قال : أشهد أنّ محمداً رسول اﷲ، خرجت العواتق من خدورهن، و قالوا : بعث رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فما رُئي يوم أکثر باکيا ولا باکية بالمدينة بعد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، من ذالک اليوم.
ذهبي، سير أعلام النبلاء، 1 : 2358
سبکي، شفاء السقام : 340
حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 308
سبکي، شفاء السقام : 340
حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 308
’’جب آپ رضی اللہ عنہ نے (بآوازِ بلند) اﷲ اکبر اﷲ اکبر کہا، مدینہ منورہ گونج اٹھا (آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے جذبات میں اضافہ ہوتا چلا گیا)، جب أشهد أن لا إلٰه إلا اﷲ کے کلمات ادا کئے گونج میں مزید اضافہ ہو گیا، جب أشهد أنّ محمداً رسول اﷲ کے کلمات پر پہنچے تو تمام لوگ حتی کہ پردہ نشین خواتین بھی گھروں سے باہر نکل آئیں (رقت و گریہ زاری کا عجیب منظر تھا) لوگوں نے کہا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد مدینہ منورہ میں اس دن سے زیادہ رونے والے مرد و زن نہیں دیکھے گئے۔
علامہ اقبال رحمۃ اﷲ علیہ اذانِ بلال رضی اللہ عنہ کو ترانۂ عشق قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اُس کے نظارے کا اک بہانہ بنی
نماز اُس کے نظارے کا اک بہانہ بنی
وارفتگی عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اذانِ بلالی رضی اللہ عنہ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد سیدنا بلال رضی اللہ عنہ مدینہ کی گلیوں میں یہ کہتے پھرتے کہ لوگو تم نے کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے تو مجھے بھی دکھا دو، پھر کہنے لگے کہ اب مدینے میں میرا رہنا دشوار ہے، اور شام کے شہر حلب میں چلے گئے۔ تقریباً چھ ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے :
ما هذه الجفوة، يا بلال! ما آن لک أن تزورنا؟
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 308
’’اے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟ (تو نے ہمیں ملنا چھوڑ دیا)، کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا؟‘‘
خواب سے بیدار ہوتے ہی اونٹنی پر سوار ہو کر لبیک! یا سیدی یا رسول اﷲ! کہتے ہوئے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے مسجدِ نبوی پہنچ کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی نگاہوں نے عالمِ وارفتگی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ کبھی مسجد میں تلاش کرتے اور کبھی حجروں میں، جب کہیں نہ پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا تھا کہ آکر مل جاؤ، غلام حلب سے بہرِ ملاقات حاضر ہوا ہے۔ یہ کہا اور بے ہوش ہو کر مزارِ پُر انوار کے پاس گر پڑے، کافی دیر بعد ہوش آیا۔ اتنے میں سارے مدینے میں یہ خبر پھیل گئی کہ مؤذنِ رسول حضرت بلال رضی اللہ عنہ آگئے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے بوڑھے، جوان، مرد، عورتیں اور بچے اکٹھے ہو کر عرض کرنے لگے کہ بلال! ایک دفعہ وہ اذان سنا دو جو محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں سناتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں معذرت خواہ ہوں کیونکہ میں جب اذان پڑھتا تھا تو اشہد ان محمداً رسول اﷲ کہتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا تھا۔ اب یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے کسے دیکھوں گا؟
بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ حسنین کریمین رضی اﷲ عنہما سے سفارش کروائی جائے، جب وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کے لیے کہیں گے تو وہ انکار نہ کرسکیں گے۔ چنانچہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :
يا بلال! نشتهی نسمع أذانک الذی کنت تؤذن لرسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فی المسجد.
سبکی، شفاء السقام : 239
هيتمی، الجوهر المنظم : 27
هيتمی، الجوهر المنظم : 27
’’اے بلال! ہم آج آپ سے وہی اذان سننا چاہتے ہیں جو آپ (ہمارے ناناجان) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مسجد میں سناتے تھے۔‘‘
اب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو انکار کا یارا نہ تھا، لہٰذا اسی مقام پر کھڑے ہوکر اذان دی جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات میں دیا کرتے تھے۔ بعد کی کیفیات کا حال کتبِ سیر میں یوں بیان ہوا ہے :
فلما قال : اﷲ أکبر، اﷲ أکبر، ارتجَّت المدينة، فلما أن قال : أشهد أن لا إلٰه إلا اﷲ، ازداد رجّتها، فلما قال : أشهد أنّ محمداً رسول اﷲ، خرجت العواتق من خدورهن، و قالوا : بعث رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فما رُئي يوم أکثر باکيا ولا باکية بالمدينة بعد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، من ذالک اليوم.
ذهبي، سير أعلام النبلاء، 1 : 2358
سبکي، شفاء السقام : 340
حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 308
سبکي، شفاء السقام : 340
حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 308
’’جب آپ رضی اللہ عنہ نے (بآوازِ بلند) اﷲ اکبر اﷲ اکبر کہا، مدینہ منورہ گونج اٹھا (آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے جذبات میں اضافہ ہوتا چلا گیا)، جب أشهد أن لا إلٰه إلا اﷲ کے کلمات ادا کئے گونج میں مزید اضافہ ہو گیا، جب أشهد أنّ محمداً رسول اﷲ کے کلمات پر پہنچے تو تمام لوگ حتی کہ پردہ نشین خواتین بھی گھروں سے باہر نکل آئیں (رقت و گریہ زاری کا عجیب منظر تھا) لوگوں نے کہا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد مدینہ منورہ میں اس دن سے زیادہ رونے والے مرد و زن نہیں دیکھے گئے۔
علامہ اقبال رحمۃ اﷲ علیہ اذانِ بلال رضی اللہ عنہ کو ترانۂ عشق قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اُس کے نظارے کا اک بہانہ بنی
نماز اُس کے نظارے کا اک بہانہ بنی
11 Jan 2012
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلقِ عشقی
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلقِ عشقی
حضرت علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کی تربیت براہِ راست آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی تھی۔ بچوں میں سب سے پہلے دامنِ اسلام سے وابستہ ہونا سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مقدر میں لکھا گیا تھا۔ اس مقام پر سیدنا علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کے اس قول کا ذکر ضروری ہے جس میں آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی لذت آفرین کیفیت کو بیان کر کے ثابت کر دیا کہ عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچم سر بلند کرنا اور اطاعتِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قندیل دل میں روشن رکھنا ہی ایمان کی اساس ہے۔
قاضی عیاض رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں کہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا :
کيف کان حبکم لرسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم؟
قاضی عياض، الشفا، 2 : 568
آپ (صحابہ کرام) کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کس قدر محبت تھی؟
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
کان و اﷲ! أحب إلينا من أموالنا وأولادنا و آباء نا و أمهاتنا و من الماء البارد علي الظمأ.
قاضي عياض، الشفاء، 2 : 568
’’اللہ کی قسم! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں اپنے اموال، اولاد، آباء و اجداد اور امہات سے بھی زیادہ محبوب تھے اور کسی پیاسے کو ٹھنڈے پانی سے جو محبت ہوتی ہے ہمیں اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے بھی بڑھ کر محبوب تھے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا معمول تھا کہ وہ زیارتِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مواقع تلاش کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اقدس کی خوشبو انہیں بتا دیتی کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرف گئے ہیں۔ وہ آسانی سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراغ لگا لیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی تابانیوں میں اپنی روح و جان کے ساتھ بھیگ جاتے۔ جناب حیدر کرار رضی اللہ عنہ کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستگی اور تقرب کا حال جاننے کے لئے یہ روایت ملاحظہ فرمائیے :
سورج کا پلٹنا اور نمازِ عصر کی ادائیگی
حدیثِ پاک میں آتا ہے کہ غزوہء خیبر کے دوران قلعہ صہباء کے مقام پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں سرِ انور رکھ کر اِستراحت فرما رہے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابھی نمازِ عصر ادا نہیں کی تھی۔ اس وقت چاہتے تو عرض کر دیتے کہ حضور صلی اﷲ علیک وسلم! تھوڑی دیر توقف فرمائیے کہ میں عصر کی نماز پڑھ لوں، پھر حاضرِ خدمت ہوجاتا ہوں۔ عقل کا تقاضا بھی یہی تھا لیکن عقل کا کام تو بقولِ اقبال رحمۃ اﷲ علیہ بہانے تلاش کرنا اور تنقید کرنا ہے۔ فرماتے ہیں :
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اَعمال کی بنیاد رکھ
عشق پر اَعمال کی بنیاد رکھ
عقل کا تو شیوہ ہی تنقید ہے، جبکہ عشق آنکھیں بند کر کے سرِ تسلیم خم کر دیتا ہے :
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
عقل سود و زیاں کے چکر میں اُلجھی رہتی ہے جب کہ عشق بے خطر آگ میں کود کر اُسے گل و گلزار میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عشق منزل کو پالیتا ہے اور عقل گردِ سفر میں گم ہو کر رہ جاتی ہے۔
بو علی اندر غبارِ ناقہ گم
دستِ رومی پردۂ محمل گرفت
دستِ رومی پردۂ محمل گرفت
(بو علی (جو کہ عقل کی علامت ہے محبوب کی) اونٹنی کے غبار میں گم ہو گیا (جبکہ عشق کے نمائندے) رومی نے ہاتھ آگے بڑھا کر (محبوب کے) کجاوے کو تھام لیا۔)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ’’عقل قرباں کن بہ پیشِ مصطفیٰ‘‘ کا مظہر بنتے ہوئے اپنی نماز محبوب کے آرام پر قربان کر دی، جس کے نتیجے میں اس کشتۂ آتشِ عشق اور پیکرِ وفا کو وہ نماز نصیب ہوئی جو کائناتِ انسانیت میں کسی دوسرے کا مقدر نہ بن سکی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ تو کب سے موقع کے متلاشی تھے کہ انہیں آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت اور قرب نصیب ہو۔ وہ ایسا نادر موقع کیونکر ہاتھوں سے جانے دیتے، وہ تو زبان حال سے کہہ رہے ہوں گے :
نمازیں گر قضا ہوں پھر ادا ہوں
نگاہوں کی قضائیں کب ادا ہوں
نگاہوں کی قضائیں کب ادا ہوں
چنانچہ انہوں نے موقع غنیمت جانا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِانور کے لئے اپنی گود بچھا دی، جس پر آپ انے اپنا مبارک سر رکھا اور اِستراحت فرمانے لگے۔ اب نہ جیسا کہ ہم ابھی بتا چکے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اور نہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے پوچھا کہ نماز عصر ادا ہوئی کہ نہیں؟
اِدھر حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی خوش بختی کے کیف میں آفتابِ نبوت کو تکے جا رہے تھے اور ادھرآفتابِ جہاں تاب اپنی منزلیں طے کرتا ہوا غروب ہوتا جا رہا تھا۔ جب ان کی نظر ڈوبتے سورج پر پڑی تو چہرۂ اقدس کا رنگ متغیر ہونے لگا۔ اور آپ رضی اللہ عنہ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔ کبھی نگاہ سورج پر ڈالتے اور کبھی محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخِ زیبا پر۔ کبھی مائل بہ غروب سورج کو تکتے تو کبھی آفتابِ رسالت کے طلوع کا منظر دیکھتے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ سورج ڈوب چلا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ نکلے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدا ر ہوئے تو دیکھا کہ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ پریشانی کے عالم میں محوِ گریہ ہیں۔ پوچھا : کیا بات ہوئی؟ عرض کیا : آقا! میری نمازِ عصر رہ گئی ہے۔ فرمایا : قضا پڑھ لو۔ انہوں نے حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا، جو زبانِ حال سے یہ کہہ رہی تھیں کہ آپ رضی اللہ عنہ لی اﷲ علیک وسلم کی غلامی میں نماز جائے اور قضا پڑھوں؟ اگر اس طرح نماز قضا پڑھوں تو پھر ادا کب پڑھوں گا؟
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ قضا نہیں بلکہ نماز ادا ہی کرنا چاہتا ہے تو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے، اللہ جل مجدہ کی بارگاہ میں دستِ اقدس دعا کے لئے بلند کر دیئے اور عرض کیا :
اللّٰهم! إنّ عليا فی طاعتک و طاعة رسولک، فاردد عليه الشمس.
طبراني، المعجم الکبير، 24 : 151، رقم : 2390
هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 3297
قاضي عياض، الشفا، 1 : 4400
ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 583
سيوطي، الخصائص الکبري، 2 : 6137
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 103
هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 3297
قاضي عياض، الشفا، 1 : 4400
ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 583
سيوطي، الخصائص الکبري، 2 : 6137
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 103
’’اے اللہ ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں مصروف تھا (کہ اس کی نماز قضا ہو گئی)، پس اس پر سورج کو پلٹا دے (تاکہ اس کی نماز ادا ہو)۔‘‘
نماز وقت پر ادا کرنا اللہ کی اطاعت ہے لیکن یہاں تو نماز قضا ہو گئی تھی اس کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قضا کو اﷲ کی اطاعت قرار دے رہے تھے۔ کیا معاذ اللہ آرام اللہ پاک فرما رہا تھا؟ نہیں، وہ تو آرام سے پاک ہے۔ کیا نیند اللہ کی تھی؟ نہیں، وہ تو نیند سے بھی پاک ہے۔ آرام حضور علیہ السلام کا تھا، نیند حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تھی، علی رضی اللہ عنہ کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیند پر قربان ہو گئی۔ اب چاہئے تو یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ ’’اے اللہ! علی تیرے رسول کی اطاعت میں مصروف تھا‘‘، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے اطاعت کا مفہوم بھی واضح ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت گری جیسی بھی ہو رب کی اطاعت ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں مصروف تھے اس لئے ان کی قضا بھی اطاعتِ الٰہی قرار پائی۔ فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے :
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اُس تاجور کی ہے
اصل الاصول بندگی اُس تاجور کی ہے
حدیثِ مبارک میں مذکور ہے کہ جب آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دستِ اقدس دعا کے لئے بلند فرمائے تو ڈوبا ہوا سورج اس طرح واپس پلٹ آیا جیسے ڈوبا ہی نہ ہو۔ یہ تو ایسے تھا جیسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں میں ڈوریاں ہوں جنہیں کھینچنے سے سورج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب کھنچا آرہا ہو۔ یہاں تک کہ سورج عصر کے وقت پر آگیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز عصر ادا کی۔
9 Jan 2012
ضرت عمر [رضی اللہ عنہ ] کی شہادت
حضرت عمر [رضی اللہ عنہ ] کی شہادت :خلیفہ دوئم امیر المومنین سیدنا عمر فاروق [رضی اللہ عنہ]کو جب شہید کیا گیا تو ان کی شہادت پر جنات نے بھی اظہار رنج وغم کیااور وہ روئے۔حضر ت حاکم[رحمتہ اللہ علیہ] نے مالک بن دینار [رحمتہ اللہ علیہ]سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر [رضی اللہ عنہ] کی شہادت پر جبل تبالہ سے یہ آواز آئی۔
''اہل اسلام بچھڑ گئے اور مسلمانوں میں ضعف نمودار ہوگیا۔دنیا کی اچھائیوں اور دنیا والوں نے اسلام سے منہ موڑ لیا اور جس کو موت کا یقین ہےوہ تو اس دنیا میں ملول ورنجیدہ ہی رہتا ہے۔''
[کرامات صحاب
Subscribe to:
Posts (Atom)